شراب سے پاک معاشرے کا قیام، ڈاکٹر رمیش کمار ونکوانی نے آئینی ترمیمی بل قومی اسمبلی میں جمع کرادیا

سال کے تمام دِن شراب خانوں کا کھلا رہنا آئین کی شق نمبر (h)37کا غلط استعمال ہے، ڈاکٹر رمیش کمار ونکوانی کی پارلیمنٹ ہاوٴس کے باہر صحافیوں سے گفتگو

منگل 29 نومبر 2016 11:35

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔29نومبر۔2016ء) پاکستان مسلم لیگ (ن)کے اقلیتی ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار ونکوانی نے غیرمسلموں کے نام پر شراب کے گھناوٴنے دھندے کی روک تھام کیلئے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں آئینی ترمیمی بِل جمع کرادیا ہے، سوموار کو پارلیمنٹ ہاوٴس کے باہر صحافیوں سے گفتگو میں تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شراب نوشی کسی بھی معاشرے کی تباہی کا باعث ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیاکے ہر مذہب میں شراب نوشی کی ممانعت ہے،سندھ ہائی کورٹ کا صوبے بھر سے شراب خانے فوری بند کرنے کے احکامات دینا خوش آئیند اقدام ہے، سپریم کورٹ نے بھی نظرثانی کرتے ہوئے واضح الفاظ میں ریمارکس دیئے ہیں کہ سپریم کورٹ احکامات سے شراب نوشی کی اجازت دینے کا تاثر نہ لیا جائے۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر رمیش کمار ونکوانی جو ملک بھر میں بسنے والے ہندووٴں کی نمائندہ تنظیم پاکستان ہندو کونسل کے سرپرستِ اعلیٰ بھی ہیں، نے 1973 ء کے آئین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آئین کی شق نمبر 37 ملک میں معاشرتی انصاف کی فراہمی اور سماجی برائیوں کا خاتمہ یقینی بنانے پر زور دیتی ہے،ذیلی شق(h) 37کے مطابق الکحل کا استعمال ممنوع ہے ماسوائے میڈیکل ادویات اور غیرمسلموں کے مذہبی تہواروں کے موقع پر۔

ڈاکٹر رمیش ونکوانی نے ہندو دھرم سمیت دیگر مذاہب کی تعلیمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بسنے والے تمام مذاہب کے علماء کرام، پنڈت ، پادری اور روحانی پیشوا حضرات کا شراب نوشی کی ممانعت پر اتفاق ہے اوروہ مذہب کے نام پر شراب کے کاروبار کی اجازت دینے کو توہین مذہب اقدام سمجھتے ہیں، انہوں نے صحافیوں سے استفسار کیا کہ انہیں پاکستان میں بسنے والے کسی ایک مذہب کا بتایا جائے جو مذہبی تہوارپر شراب نوشی کی اجازت دیتا ہو،ڈاکٹر رمیش ونکوانی کے مطابق سال کے تمام دِن شراب خانوں کا کھلا رہنا آئین کی شق نمبر (h)37کا غلط استعمال ہے۔

انہوں نے سعودی عرب، ایران، بنگلہ دیش ، کویت، سوڈان سمیت دیگر اسلامی ممالک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہاں شراب نوشی پر سختی سے پابندی ہے جبکہ متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا،بحرین، مصر، وسط ایشیائی ریاستوں میں شراب خانے تو موجود ہیں لیکن غیرمسلموں کے نام پر نہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر رمیش نے کہا کہ انکی معلومات کے مطابق سندھ بھر میں لگ بھگ 161شراب خانے فعال ہیں، اگر شراب خانوں سے ریونیو اکٹھا ہونے کا موقف مان لیا جائے تو اس کاروبار کو غیرمسلموں کے ساتھ منسوب کرنے کی بجائے تمام شہریوں کو بلا تفریق روزگاری مواقع فراہم کرکے ریونیو میں مزید اضافے پر غور کیوں نہیں کیا جاتا ، انہوں نے اِس امر پر تعجب کا اظہار کیا کہ سپرہائی وے سے ملحقہ علاقے نوری آبادمیں حال ہی میں شراب خانہ کھولا گیا ہے جبکہ وہاں ایک بھی غیرمسلم رہائش پذیر نہیں۔

انہوں نے کہا کہ زیادہ تر شراب کی فیکٹریاں بلوچستان میں قائم ہیں ، اور اس حوالے سے شراب کی اسمگلنگ کی روک تھام بھی سختی سے یقینی بنانی چاہیے۔ڈاکٹر رمیش ونکوانی نے معاشرے کے تمام مکاتبِ فکر سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ تمام مذاہب کا احترام یقینی بنانے کیلئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی شق نمبر37کے پیراگراف (h)سے غیرمسلموں اور مذہبی تہواروں پرشراب نوشی کی اجازت ہذف کرنے کیلئے انکے جمع کردہ آئینی ترمیمی بِل کی حمایت کی جائے۔