قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی خزانہ کی پراپرٹی سیکٹر کو ایمنسٹی سکیم دینے کی سفارش

اسکیم کے تحت7ٹریلین کے کالے دھن کو سفید ،جائیداد کی اصل قیمت ظاہر کرنے پر ایک فیصد ٹیکس دے کر چھان بین سے بچا جا سکے گا این ٹی ایس ڈبل شاہ بن گیا ،ٹیسٹ کے نام پر طلباء سے اربوں بٹورے جارہے ہیں،اس ادارہ کو بند کرنے کی ضرورت ہے،میاں عبدالمنان لیگی رہنماء حکومت کی زرعی پالیسیوں پر پھٹ پڑے ،کمیٹی کی حکومت کو چھوٹے کسانوں کو قرضہ سات فیصد شرح سود سے دینے کی بھی سفارش

بدھ 23 نومبر 2016 10:47

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔23نومبر۔2016ء)قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے پراپرٹی سیکٹر کو ایمنسٹی سکیم دینے کی سفارش کردی۔ اس اسیکم کے تحت7ٹریلین روپے کے کالے دھن کو سفید کیا جا سکے گاجائیداد کی اصل قیمت ظاہر کرنے پر ایک فیصد ٹیکس دے کر چھان بین سے بچا جا سکے گا ترمیمی بل کے تحت جائیداد کو یکم اگست سے لاگو ایف بی آر او ر ڈی سی ریٹ کے فرق کی رقم کو 3فیصد ٹیکس دے کر قانونی بنا سکے گاپراپرٹی پر تیکس دینے والوں سے نہیں پوچھا جائے گا کہ سرمایہ کہاں سے آیا ہے مجوزہ بل کے تحت 50لاکھ کی پراپرٹی ٹیکس سے منتشتی ہو گئی اس بل سے پہلے40لاکھ کی پراپرٹی فیڈرل ٹیکسز سے مستثنیٰ تھی، این ٹی ایس ڈبل شاہ بن گیا ہے،ٹیسٹ کے نام پر طالب علموں سے اربوں روپے بٹورے جارہے ہیں،اس ادارہ کو بند کرنے کی ضرورت ہے،کمیٹی میں مسلم لیگ(ن) کے رہنما حکومت کی زرعی پالیسیوں پر پھٹ پڑے حکومت زرعی شعبہ کو مسلسل نظرانداز کر رہی ہے،زرعی گروتھ کے بغیر انڈسٹریل گروتھ نہیں ہوسکتی حکومت کی جانب سے پیش کئے جانے والے اعداد وشمار بھی مشکوک ہیں،کمیٹی نے حکومت کو چھوٹے کسانوں کو قرضہ سات فیصد شرح سود سے دینے کی سفارش کردی۔

(جاری ہے)

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چےئرمین کمیٹی قیصر احمد شیخ کی زیرصدارت منگل کو پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا اس موقع پر رٹیل اسٹیٹ سیڈ پر رواں مالی سال کے بجٹ میں ٹیکسز کے معاملہ پر غور کیا گیا اور خزانہ کی ذیلی کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کی،کمیٹی کے کنوینئر میاں عبدالمنان نے کہا کہ ملک میں پراپرٹی سیکٹر میں ٹیکس لگنے کی وجہ سے کاروبار ٹھپ ہوگیا ہے۔

حکومت سرمایہ کاروں کی بہتری کے لیے ذیلی کمیٹی کی سفارشات کو قبول کرے ذیلی کمیٹی کی سفارشات کے تحت کوئی بندہ اپنی جائیداد کی اصل قمیت ظاہر کرے گاوہ ایک فیصد ٹیکس دے کر چھان بین سے نچ جائے گااس کے علاوہ ترمیمی بل میں جائیداد کو یکم اگست سے لاگو ایف بی آر او ر ڈی سی ریٹ پر 3فیصد ٹیکس دے کر قانونی بنا سکے گاپراپرٹی پر تیکس دینے والوں سے نہیں پوشھا جائے گا کہ سرمایہ کہاں سے آیا ہے مجوزہ بل کے تحت 50لاکھ کی پراپرٹی ٹیکس سے منتشتی ہو گئی اس بل سے پہلے40لاکھ کی پراپرٹی فیڈرل ٹیکسز سے مستشنی تھی اس دوران ایف بی آر کے چیر مین نے کہا کہ حاصل ہونے والے ٹیکس طاہر کرتا ہے کہ پراپرٹی سیکٹر میں کوئی کام ٹھپ نہیں ہوا ڈی دی ریٹ کو آرڈینیش سے کوئی تعلق نہیں ہے وہ نوٹیفیکشن کے تحت ہوئے تھے اگر اس میں ترمیم لانا ہے تو نوٹیفیکشن میں ترمیم لانا ہوگی جس پر کمیٹی کے ذیلی کمٹیٹی کی تمام سفارشات متفقہ طور پر منظور کر لیں ممبر قومی اسمبلی سراج محمد خان نے نقطہ اعتراض کے حوالے سے این ٹی ایس کے چےئرمین نے کہا کہ ادارہ کوئی پیسہ نہیں کما رہا دیگر اداروں کے پاس ٹیسٹ منعقد کروانے کی صلاحیت نہیں ہے جبکہ ہم پر تحصیل میں امتحانات منعقد کروا رہے ہیں اس پر کمیٹی کے ممبر میاں عبدالمنان نے کہا کہ ایس ای سی پی نے رپورٹ دی ہے کہ آپ آڈٹ نہیں کروا رہے آپ ان کے فیصلہ کے خلاف عدالت میں کیوں گئے ہیں۔

کمیٹی کی ممبر نفیسہ شاہ نے کہا کہ ادارہ کا اب تک کتنی بار آڈٹ ہوا ہے اور آڈٹ کوٹ کر رہا ہے اس پر چےئرمین این ٹی ایس نے کہا کہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے آڈٹ کر رہا ہے اس سے پہلے آڈٹ نہیں ہوا ہے۔کمیٹی کے چےئرمین نے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے این ٹی ایس کا معاملہ قائمہ کمیٹی برائے سائنس کو منتقل کر دیا ہے جس پر کمیٹی کے ممبر پھٹ پڑے اور کہا کہ اسپیکر کے فیصلہ کو نہیں مانتے ہمیں اس فورم پر ہر بات سننے کا اختیار ہے۔

کمیٹی نے این ٹی ایس کا ریٹیبل آڈٹ کروانے کی سفارش کردی۔مسلم لیگ(ن) کے کمیٹی میں زرعی ترقیاتی بنک کی جانب سے زرعی قرضوں کا معاملہ پیش آیا اس موقع پر بنک کے سینئرایگزیکٹو وائس صدر ندیم چوہان نے کہا کہ بنک نے2015ء کے دوران95 ارب روپے سے زائد رقم تقسیم کی ہے جبکہ ریکوری88ارب سے زائد ہے۔بنک نے حکومت کو3ارب 88کروڑ روپے کا ٹیکس دیا ہے،اس پر کمیٹی کی ممبر نفیسہ شاہ نے کہا کہ زراعت ملک کا اہم سیکٹر ہے زرعی ترقی کے لئے بنک کیا پلان بنا رہا ہے۔

رشید گوڈیل نے کہا کہ جب تک ملک میں زرعی گروتھ نہیں ہوگی انڈسٹریل گروتھ نہیں ہوسکتی،حکومت گروتھ کے اعداد وشمار پیش کرتی ہے اس پر بھی شکوک وشبہاب ہیں۔کمیٹی کے ممبر راؤ اجمل نے کہا کہ زرعی ترقیاتی بنک چھوٹے کسانوں کو 15فیصد سود کی شرح سے قرضہ دے رہا ہے جو کہ دیگر بنکوں کے مقابلہ میں زائد ہے اور اگر کوئی بندہ رقم ادا نہیں کر پاتا تو اس کی جائیداد قبضہ میں لی جاتی ہے جس پر زرعی ترقیاتی بنک کے صدر نے کہا کہ بنک سالانہ 4ارب سے زائد حکومت کوٹیکس دیتا ہے،اگر یہ ختم کروا دیا جائے تو کسانوں کو آسان شرائط پر قرضے دے سکتے ہیں۔

سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ یہ ایک اہم معاملہ ہے،کمیٹی جو بھی سفارش کرے اس پر غوروخوض کریں گے جس پر کمیٹی نے کسانوں کو زرعی قرضے7فیصد شرح سے دینے کی سفارش کردی

متعلقہ عنوان :