عوامی تحریک کا وفاقی حکومت کی اقتصادی ترقی پر وائٹ پیپر جاری

خوراک، تعلیم، انسانی ترقی کے منصوبہ جات کے حوالے سے پاکستان کا شمار ایتھوپیا میں ہورہا ہے سرمایہ کاری، زرعی پیداوار، برآمدات میں کمی، قرضوں ،کرپشن میں اضافہ ترقی کا کونسا ماڈل ہے؟ پارلیمنٹ اور چھوٹے صوبے اقتصادی راہداری کے سلیمانی ٹوپی والے منصوبوں سے لاعلم ہیں نواز حکومت نے 3 سال میں غیر ملکی قرضوں میں 13 ارب ڈالر اضافہ کیا، وائٹ پیپرخرم نواز گنڈاپور و دیگر مرکزی رہنماؤں نے جاری کیا موٹرویز رہن پڑی ہیں، پانامہ کے کرپٹ کردار نام نہاد منصوبوں سے قوم کو دھوکہ دے رہے ہیں آئی ایم ایف سمیت عالمی اداروں کی رپورٹس کو حکومت کا ڈس انفارمیشن سیل توڑ مروڑ کر شائع کرواتا ہے

ہفتہ 12 نومبر 2016 11:07

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔12نومبر۔2016ء )پاکستان عوامی تحریک نے آئی ایم ایف کی طرف سے اقتصادی استحکام کی حکومتی سپانسرڈ رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترسیلات زر، سرمایہ کاری، برآمدات، زرعی اہداف میں کمی اور موٹرویز سمیت تاریخی عمارت گروی رکھ کر دھڑا دھڑ غیر ملکی قرضے لینا ترقی کا کونسا ماڈل ہے؟پاناما لیکس کے کرپٹ کردار قوم کو موٹرویز کے لالی پاپ سے بہلارہے ہیں۔

9 سال قبل ترقی کی شرح نمو 7.5 فیصد تھی جو آج 2016 ء میں بھی 4.7 فیصد سے نیچے ہے۔وفاقی حکومت کی اقتصادی کارکردگی پر وائٹ پیپر جاری کرتے ہوئے مرکزی سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور، ڈاکٹر ایس ایم ضمیر، بشارت جسپال اور ساجد محمود بھٹی نے کہا کہ نواز حکومت آئی ایم ایف سمیت دیگر بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس کو اصل متن کے برعکس توڑ مروڑ کر پیش کرتی ہے۔

(جاری ہے)

آئی ایم ایف کی طرف سے ہر گز ایسی کلین چٹیں نہیں دی گئیں جنہیں حکومت کے ڈس انفارمیشن سیل نے پھیلانے کی کوشش کی۔ خرم نواز گنڈاپور نے وائٹ پیپر میں کہا کہ اقتصادی راہداری منصوبہ کے 46 ارب ڈالر قرضہ ہے، سرمایہ کاری ہے، تحفہ ہے یا کیا ہے؟ تاحال اس راز سے پردہ نہیں اٹھ سکا۔ یہاں تک کے پارلیمنٹ اور خیبرپختونخوا اقتصادی راہداری کے ”سلیمانی ٹوپی والے منصوبوں“ سے لاعلم ہے۔

سٹیٹ بنک کی رپورٹس کے مطابق پاکستان کے ذمہ غیر ملکی واجب الادا قرضے73ارب ڈالر ہو چکے ہیں۔ نواز حکومت نے غیر ملکی قرضوں میں 13 ارب ڈالر اضافہ کیا۔ یہاں تک کہ موٹرویز سمیت 73 تاریخی عمارتیں بھی قرضوں کے عوض رہن رکھی جا چکی ہیں۔ بجلی، گیس کے بحرانوں کے باعث سالانہ 10 لاکھ مزدور بے روزگار ہورہے ہیں۔ کرپشن آج بھی مسئلہ نمبرون ہے۔ 7 ماہ بعد بھی نواز حکومت نے پانامہ لیکس جیسے مالیاتی سکینڈل کا جواب نہیں دیا۔

حکومت کرپشن کے خاتمے اور احتساب کے قوانین نہیں بننے دے رہی۔وزیراعظم ایک کرپٹ سیاستدان کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ لاء اینڈ آرڈر میں بہتری کا کریڈیٹ آپریشن ضرب عضب کو جاتا ہے۔وائٹ پیپر میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی غذا پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی 2015 ء کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے 118 ممالک میں سے صرف 10 ملک ایسے ہیں جہاں غذائی صورت حال پاکستان سے زیادہ خراب ہے۔

رپورٹ میں عالم اسلام کی جوہری طاقت پاکستان کا درجہ افریقی ملک ایتھوپیا کے برابر رکھا گیا ہے۔عالمی اقتصادی فورم کی جاری کردہ عالمی مسابقتی رپورٹ برائے 2016,17 کے مطابق 138 ملکوں کی درجہ بندی میں پاکستان کا نمبر 122 واں ہے یعنی صرف 16 ملک پاکستان سے نیچے ہیں یہاں تک کہ بھوٹان اور نیپال کی درجہ بندی بھی پاکستان سے بہتر ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان واحد ملک ہے جو مائیکرو اکنامک، صحت، پرائمری تعلیم اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں بہتری لانے میں ناکام رہا۔

ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار بدعنوان ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔ 168 ملکوں میں سے 116 میں کرپشن پاکستان سے کم ہے۔وائٹ پیپر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ انسانی وسائل کی ترقی کے لحاظ سے 188 ملکوں میں سے 146 ملک پاکستان سے آگے ہیں۔ وائٹ پیپر میں کہا گیا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کی رپورٹس کو غلط رنگ دے کر پیش کرتی ہے۔ آئی ایم ایف کے ایم ڈی کرسٹین لاگارڈ نے بھی حکومت پاکستان کی طرف سے بہت زیادہ قرضے لینے پر تشویش کااظہار کیا۔

یہاں تک کہ قرضوں پر سود کی ادائیگی کی رقم چاروں صوبوں کے مجموعی ترقیاتی بجٹ سے زیادہ ہے۔ آئی ایم ایف کے ایم ڈی نے یہ بھی کہا کہ دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں جی ڈی پی اور برآمدات کا تناسب 40فیصد ہے جبکہ پاکستان کا تناسب 10فیصد ہے۔ وائٹ پیپر میں کہا گیا ہے کہ یہ تمام اعداد و شمار اور بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ پاکستان کی معیشت بہتر نہیں ہورہی بلکہ بے پناہ قرضے لے کر آئندہ حکومتوں کے لیے سنگین مسائل کھڑے کیے جارہے ہیں۔

وائٹ پیپر میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ حکومت پاکستان نے برسراقتدار آتے ہی 19 اگست 2013 کو آئی ایم ایف کو ایک خط لکھا تھا جس میں قرضہ لینے کیلئے آئی ایم ایف کو تحریری یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ آئندہ تین برسوں تک بجلی گیس کے نرخ بڑھاتے چلے جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں جو کمی ہوئی کمی کی شرح کے مطابق پاکستان میں قیمتوں میں کمی نہیں کی گئی۔

وائٹ پیپر میں کہا گیا ہے کہ حکومت صرف آئی ایم ایف کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ جس کی وجہ سے آئی ایم ایف خوش ہے۔ آئی ایم ایف کے حکام کے اخراجات کا ایک بڑا حصہ پاکستان کو دئیے جانے والے قرضوں پر حاصل ہونے والے سود سے پورا ہورہا ہے۔بجلی گیس کے بحران وعدوں کے مطابق کم ہوئے اور نہ ہی ادویات، خوراک کی قیمتیں کنٹرول ہو سکیں۔