سینٹ کمیٹی،پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے بل پر پیشرفت نہ ہوسکی

حکومتی اراکین کا اپوزیشن کی جانب سے بل میں مذید ترامیم پر اعتراض،چیئرمین نے معاملے کی وضاحت کیلئے چیئرمین سینٹ سے رجوع کرنے کی تجویز دیدی تجویز پر رائے شماری کے دوران حکومت، اپوزیشن کے برابر ووٹ، چیرمین نے ووٹ حکومت کے حق میں ڈال دیا ، پیپلز پارٹی کا چیئرمین کمیٹی پر جانبداری کا الزام

بدھ 9 نومبر 2016 11:46

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔9نومبر۔2016ء) سینٹ کی قائمہ کمیٹی میں پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے پیش کیے جانے والا بل پر پیش رفت نہ ہوسکی ،حکومتی اراکین نے اپوزیشن کی جانب سے بل میں مذید ترامیم پر اعتراض کردیا جس پر چیئرمین کمیٹی نے معاملے کی وضاحت کیلئے چیئرمین سینٹ سے رجوع کرنے کی تجویز پیش کی ،تجویز پر رائے شماری کے دوران حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے برابر ووٹ آنے پر چیئرمین کمیٹی نے اپنا ووٹ حکومت کے حق میں ڈال دیا ،ایم کیو ایم کے رکن نے بھی تجویز پر حکومت کی حمایت کر دی ،کمیٹی میں شامل پیپلز پارٹی کے اراکین نے چیئرمین کمیٹی پر جانبداری کا الزام لگاتے ہوئے اسے حکومت کا پانامہ لیکس کی تحقیقات سے فرار قرار دیدیاہے ،بدھ کے روز پانامہ لیکس کی تحقیقات کے حوالے سے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس چیئرمین سینیٹر جاوید عباسی کی سربراہی میں پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا اجلا س میں کمیٹی کے اراکین کے علاوہ بل کے محرکین سمیت وفاقی وزیر قانون اور دیگر حکام موجود تھے اس موقع پر کمیٹی کے چیئرمین جاوید عباسی نے کہاکہ پانامہ لیکس کی تحقیقات کے حوالے سے سینٹ کی جانب سے بل بھجوایا گیا ہے انہوں نے کہاکہ چونکہ اس وقت سپریم کورٹ میں بھی پانامہ لیکس کے حوالے سے پی ٹی آئی کی جانب سے دائر کئے جانیوالے پٹیشن کی سماعت ہو رہی ہے لہذا بہتر یہ ہوگا کہ بل کے محرکین اور کمیٹی کے اراکین اس پر رائے دیں کہ موجودہ بل کو سپریم کورٹ کے فیصلے تک موخر کیا جائے انہوں نے کہاکہ بل میں پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے تین ججز پر مشتمل کمیٹی قائم کرنے کی بات کی گئی ہے جبکہ سپریم کورٹ میں 5ججز پانامہ لیکس کی تحقیقات کر رہے ہیں انہوں نے کہاکہ اسی طرح کا ایک بل قومی اسمبلی نے بھی منظور کیا ہے بہتر ہوگا کہ دونوں بل کمیٹی کے اراکین کو دیکراس پر بحث کی جائے جس پر کمیٹی کے رکن اعتزاز احسن نے کہاکہ قانون سازی کا حق پارلیمنٹ ہاؤس کو حاصل ہے اور سپریم کورٹ پارلیمنٹ کو قانون سازی سے نہیں روک سکتی ہے انہوں نے کہاکہ بہت سارے معاملات عدالتوں میں ہوتے ہیں مگر ان معاملات پر قانون سازی پارلیمنٹ کر سکتی ہے انہوں نے کہاکہ اس سلسلے میں قوانین واضح ہیں انہوں نے کہاکہ سینٹ کی اپوزیشن جماعتوں نے مشترکہ طور پر یہ بل پیش کیا ہے جس میں اے این پی کی جانب سے یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ یہ بل صرف پانامہ لیکس تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اس میں دیگر آف شور کمپنیوں کے بارے میں تحقیقات کا زکر کیا جائے ہم نے ان کی تجویز کو تسلیم کیا ہے بل کے محرکین سینٹر فرحت اللہ بابر،سینیٹر تاج حیدرسینیٹر شیر رحمن،سینیٹر رحمن ملک ،سینیٹر سسی پلیجو،سینیٹرکریم احمد خواجہ ،سینیٹرسلیم مانڈوی والا،سینیٹر مختار دھامرہ سینیٹر گیان چند اور سینٹر کامل علی آغا نے کہاکہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حق حاصل ہے اگر ہم یہاں پر قانون سازی نہیں کریں گے تو عوام کا ہم پر سے اعتماد اٹھ جائے گا انہوں نے کہاکہ پہلے ہی پارلیمنٹ کے بارے میں عوام میں یہ تاثر ہے کہ یہ صرف ڈیبیٹنگ کلب ہے انہوں نے کہاکہ تمام سیاسی جماعتوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ پارلیمنٹ قانون سازی کیلئے بااختیار ادارہ ہے انہوں نے کہاکہ موجودہ بل کا مقصد کسی خاص پارٹی یا وزیر اعظم کو ٹارگٹ کرنا نہیں ہے بلکہ پانامہ لیکس کے تحت بنائی گئی تمام آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کرنا ہے اس موقع پر حکومتی اراکین عائشہ رضا فاروق، سینیٹرنہال ہاشمی اور سینیٹر سلیم ضیا نے کہاکہ حکومت کرپشن کے خلاف تحقیقات پر یقین رکھتی ہے اور موجودہ بل کی حمایت کرتے ہیں تاہم سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس کے حوالے سے معاملات زیر سماعت ہیں لہذا ہمیں جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے ایم کیو ایم کے سینیٹر بیرسٹر محمد علی سیف نے کہاکہ چونکہ سپریم کورٹ پانامہ لیکس کے حوالے سے پٹیشن کی سماعت کر رہی ہے ہمیں فی الحال اس کو موخر کرنا چاہیے اس موقع پر وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے کہاکہ پانامہ لیکس کے حوالے جو بل کمیٹی میں پیش کیا جا رہا ہے یہ بل پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ میں جمع کرائے جانے والے ٹی او آرز کے ساتھ بھی لگایا ہے انہوں نے کہاکہ اس وقت پارلیمنٹ کی بالادستی کا کوئی سوال نہیں ہے انہوں نے کہاکہ بہتر یہ ہوگا کہ ہم سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کریں تاہم کمیٹی کے اپوزیشن اراکین نے اس جواز کو تسلیم نہیں کیا اس موقع پر سینیٹر اعتزاز احسن نے بل میں اے این پی جانب سے تمام آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کرنے کے مطالبے کو دہرایا جس پر وفاقی وزیر قانون نے کہاکہ اگر بل میں ترامیم کرنی ہے تو اس کیلئے اراکین کو ترامیم دیکردو دنوں کا وقت دیا جائے تاکہ اس پر سوچ بچار کیا جا سکے انہوں نے کہاکہ کمیٹی میں غلط روایت ڈالی جا رہی ہے جس پر سینیٹر اعتزاز احسن نے کہاکہ یہ ترمیم نہیں ہے بلکہ یہ تبدیلی ہے جو کہ کمیٹی کے اجلاس میں کی جا سکتی ہے انہوں نے کہاکہ بل پر جو ترامیم کی جاتی ہیں وہ ایوان میں پیش کی جاتی ہیں اور وہاں پر اس کی منظوری لی جاتی ہے انہوں نے حکومت پر اجلاس سے راہ فرار اختیار کرنے کا الزام عائد کیا تا ہم ایک گھنٹے تک بحث کے باوجود حکومت اور اپوزیشن کے اراکین اس پر متفق نہ ہوسکے جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ اس سلسلے میں تجویز پیش کرتا ہوں کہ معاملے کو چیئرمین سینٹ کے نوٹس میں لیا جائے وہ اس کا فیصلہ کریں مگر اس پر بھی حکومت اور اپوزیشن متفق نہ ہوسکی جس کے بعد چیئرمین کمیٹی نے تجویز پر رائے شماری کرائی اس موقع پر ایم کیو ایم نے حکومت کا ساتھ دیا اور دونوں اطراف سے چار چار ووٹ پڑے چیئرمین کمیٹی نے اپنا ووٹ تجویز کے حق میں دیتے ہوئے معاملے کی وضاحت کیلئے چیئرمین سینٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کر دی ا س موقع پر ایوان میں موجود پاکستان پیپلز پارٹی کے اراکین نے چیئرمین کمیٹی پر جانبداری کا الزام لگاتے ہوئے حکومت کے خلاف نعرے بازی کی ۔