پانامہ تحقیقات سے قبل ہی وزیراعظم کو اخلاقی طور پر استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا ، عمران خان

ملک میں نیب‘ ایف آئی اے اور ایف بی آر سمیت اہم ادارے کرپشن کے خاتمے کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کررہے بعض سیاسی جماعتیں کرپشن کے معاملے میں ایک دوسرے کو سپورٹ کررہی ہیں سپریم کورٹ کے فیصلے کو پی ٹی آئی تسلیم کرے گی، انٹرویو

منگل 8 نومبر 2016 10:34

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔8نومبر۔2016ء) پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے کہا ہے کہ سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس کی تحقیقات سے قبل ہی وزیراعظم کو اخلاقی طور پر استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا۔ ملک میں نیب‘ ایف آئی اے اور ایف بی آر سمیت اہم ادارے کرپشن کے خاتمے کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کررہے ہیں‘ بعض سیاسی جماعتیں کرپشن کے معاملے میں ایک دوسرے کو سپورٹ کررہی ہیں سپریم کورٹ کے فیصلے کو پی ٹی ائی تسلیم کرے گی۔

سوموار کے روز نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں پانامہ لیکس پر مذاق ہورہا تھا اس لئے عدالت چلے گئے لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت احتساب سے بھاگ رہی ہے سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کرے پی ٹی آئی کو منظور ہوگا۔

(جاری ہے)

اس سے پہلے بھی دھاندلی کمیشن کا فیصلہ ہم نے قبول کرلیا ہے۔ اہوں نے کہا کہ حکومت نے پیر کو سپریم کورٹ سے حکومت نے پانامہ لیکس پر جواب جمع کروانے کے حوالے سے وقت مانگ لیا ہے۔

پانامہ لیکس پر اپنے ثبوت اکٹھے کریں گے۔ جبکہ ثبوت اکٹھے کرنا حکومتی اداروں کا کام ہے لیکن وزیراعظم کے ماتحت ہونے کی وجہ سے اداروں کے سربراہان ڈر رہے ہیں اس لئے پی ٹی آئی نے وزیراعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا تھا تاکہ ادارے اپنی کارروائی آزادانہ طور پر کر سکیں نیب کے پاس 1998 ء سے تمام ریکارڈ موجود ہیں۔ پارلیمنٹ میں پانامہ پر مذاق ہورہا تھا۔

آج بھی حکومت نے وقت مانگ لیا لگ رہا ہے کہ حکومت احتساب سے بھاگ رہی ہے سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کرے ہم قبول کریں گے۔ ہم نے دھاندلی کمیشن کا فیصلہ قبول کیا تھا۔ وزیراعظم کو استعفیٰ دینا چاہیے تھا کیونکہ تمام تحقیقاتی ادارے ان کے ماتحت ہیں ثبوت اکٹھے کرنا اداروں کا کام ہے۔ ہم اپنے ثبوت اکٹھے کریں گے۔ عدالت نے کہا کہ دو سماعت میں کیس ختم ہوسکتا ہے۔

خواجہ آصف اور شیخ رشید نے کہا کہ لندن فلیٹس میں گئے تھے نیب کے پاس 1998 ء سے ثبوت پڑے ہوئے ہیں۔ مشرف نے نواز شریف کو این آر او دیا تھا۔ انہوں نے کہاکہ 2نومبرکوکوئی غیرقانونی اقدام کاارادہ نہیں تھالیکن حکومت نے 28ستمبرسے گرفتاریاں شروع کردی اورملک بھرکے کارکنان سمیت ان کے رشتہ داروں کوبھی گرفتارکرلیاجس کے بعد31اکتوبرسے وزیراعلیٰ کے پی کے پرویزخٹک کواسلام آبادآ نے کاکہاجبکہ ایک صوبے کے منتخب وزیراعلیٰ پرشیلنگ کی وہ انتہائی غصے میں تھے جس کی وجہ سے میں نے اپنی پالیسی تبدیل کی کیونکہ ملک میں خون ریزی کاخدشہ تھا۔

انہوں نے کہاکہ اپوزیشن کاکام حکومت کوغلط اقدامات سے روکناہوتاہے ۔2013ء کے الیکشن میں ملک کی بائیس جماعتوں نے الیکشن میں دھاندلی کاالزام لگایاہم نے صرف چارحلقوں کی تحقیقات کامطالبہ کیامگرہماری بات نہیں سنی گئی ۔انہوں نے کہاکہ ملک میں نیب ،ایف آئی اے اورایف بی آرسمیت کوئی بھی ادارہ اپناکام نہیں کررہااورہمارے لئے صرف ایک ہی راستہ رہ گیاتھاکہ یاتوخاموش ہوکربیٹھ جائیں یاکرپشن کے خلاف احتجاج کریں ۔

انہوں نے کہاکہ ملک میں کرپٹ سیاستدانوں نے آپس میں اتحادکیاہواہے ،جب ہم کرپشن کی تحقیقات کانعرہ لگاتے ہیں توہمیں ملک میں انتشارپھیلانے کاالزام لگایاجاتاہے ۔انہوں نے کہاکہ جمہوریت میں لیڈرمحنت کرکے آتاہے مگرپاکستان میں بادشاہت چل رہی ہے ۔انہوں نے کہاکہ ملک کاایک ہی مسئلہ ہے کہ اداروں کے سربراہوں کومیرٹ پر نہیں لایاجاتاہے ۔انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کی تحقیقات سے قبل ہونایہ چاہئے تھانوازشریف استعفیٰ دیکرکسی اورکوحکومت کاموقع دیتے مگرموجودہ حالات میں لگتاہے کہ نوازشریف کے خلاف فیصلہ آنے کے بعدحکومت ہی ختم ہوجائے گی۔