اعلیٰ عدلیہ میں وزیر داخلہ، حکومت پنجاب کے خلاف پورے پاکستان کے ساتھ زمینی رابطے بند کرنے ، ظلم و بربریت کی داستان رقم کرنے کے خلاف رٹ پٹیشن دائر کرنے جارہے ہیں، پرویز خٹک

خیبرپختونخوا کے عوام کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کیا گیا ،زیادتی کی گئی، نواز شریف کے ہاتھ اگر صاف ہیں تو وہ اتنا کیوں نہیں بتاتے لندن کے فلیٹس کس کی ملکیت ہیں ؟کس رقم سے خریدے ؟، وزیراعلیٰ کے پی کے

اتوار 6 نومبر 2016 14:00

نوشہرہ کینٹ(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔6نومبر۔2016ء)وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے کہا ہے کہ ہم اعلیٰ عدلیہ میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور حکومت پنجاب کے خلاف خیبرپختونخوا کاپنجاب اور پورے پاکستان کے ساتھ زمینی رابطے بند کرنے اور نہتے عوام پر ظلم و بربریت کی داستان رقم کرنے کے خلاف رٹ پٹیشن دائر کرنے جارہے ہیں تاکہ اس کا ایک بار ہی فیصلہ ہوجائے۔

تاکہ آئندہ کوئی بھی کسی صوبے کے راستے غیر آئینی، غیر جمہوری اور غیر قانونی طریقے سے بند نہ کرسکے۔ ہم ایف آئی آر کرنے بھی جارہے ہیں لیکن ایف آئی آر کا حشر نشر ہمیں معلوم ہے۔ ہم وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، حکومت پنجاب ، آئی جی پنجاب پولیس، آئی جی اسلام آباد کمانڈنٹ فرنٹیرکانسٹیبلری کے خلاف رٹ پٹیشن دائرکررہے ہیں۔

(جاری ہے)

جس پر کام شروع ہوچکا ہے۔

اس لیے ہم سپریم کورٹ آف پاکستان کادروازہ انصاف کے لیے کھٹکھٹا رہے ہیں تاکہ سب پر واضح ہو کہ آئین میں راستے بند کرنے کی کوئی گنجائش ہے۔ خیبرپختونخوا کے عوام کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کیا گیا اورزیادتی کی گئی ۔ہمیں ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا گیا ۔ ہم چیختے رہے کہ کونسا قانون ہے جو نہتے لوگوں پر شیلنگ کررہا ہے کیا ان نہتے لوگوں نے فساد کی بات کی تھی ۔

کیا اُنہوں نے انتشار پھیلایا تھا اور یا قانون ہاتھ میں لیا تھا ۔ہم تو صرف اپنے قائد کی کال پر اُن کا محاصرہ توڑنے بنی گالہ جارہے تھے ۔ ان کی جان کو خطرہ تھا ۔ہم تلاشی کی بات کرتے ہیں لیکن یہ تلاشی ہم کرپشن اور وہ بھی ایسی جو بین الاقوامی سطح تک پورے ملک کو بدنام کررہی ہے کے خلاف کرنا چاہتے تھے۔ہم نے تو قانون کی پاسداری کرتے ہوئے راستہ صاف کیا۔

وہ نوشہرہ کے تفصیلی دورے کے موقع پر نوشہرہ میں اخبار نویسیوں سے بات چیت کررہے تھے۔ اس موقع پر صوبائی وزیر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن میاں جمشید الدین کاکاخیل، ایم این اے ڈاکٹر عمران خٹک، ضلعی ناظم لیاقت خان خٹک، ارکان اسمبلی میاں خلیق الرحمن ادریس خٹک اور ریاض خان ایڈوکیٹ بھی موجود تھے۔ پرویز خان خٹک نے کہا کہ ہم تو صرف ایک پارٹی مسلم لیگ ن جو دھاندلی کے نتیجے میں برسراقتدار آئی ہے۔

اُن کی کرپشن کی داستانیں سن سن کر اُن کی تلاشی کی بات شروع کی ہے۔جو اصولوں پر مبنی ہے۔وزیر اعظم نواز شریف کے ہاتھ اگر صاف ہیں تو وہ اتنا کیوں نہیں بتاتے کہ لندن کے فلیٹس کس کی ملکیت ہیں کس رقم سے خریدے گئے۔ تفصیلات بتا دیں۔ اگر ہم غلط ہوئے تو ہم ناکام لوٹیں گے۔جمہوریت کے لبادے میں تاریخ کے سب سے بڑے ڈکٹیٹروں نے قانون ہاتھ میں لے کر عوام کے بنیادی حقوق خود سلب کیے اوپر سے آواز اُٹھا رہے ہیں کہ ہم نے دفعہ 144 لگاکر اسلام آباد میں قبضے اورانتشار کوروکا۔

خیبرپختونخوا کے عوام پرامن تھے۔ ہمارے پاس لاٹھی تھی اور نہ اسلحہ ۔ ہمارا راستہ کیوں بند کیاگیا اور ہم پر ظلم کی داستان کیوں رقم کی گئی ۔ ہم کہہ رہے تھے کہ یہ اکسویں صدی ہے ۔یہ میڈیا کا دور ہے ۔اس میں عوامی حقوق ، جمہوریت ، بنیادی حقوق اور کرپشن کے خلاف جہاد کو موثر ذریعہ سمجھا جا تا ہے۔اب حکمران کرپشن نہیں کر سکتی نہ دھونس ، دھاندلی سے کام چلے گا نہ بشری حقوق کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے اور نہ حکمران قانون کی خود تشریح کرسکتے ہیں اور نہ آئین کی اپنی مرضی کے مطابق تشریح کر سکتے ہیں ۔

ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ نے کہاکہ ہم سپریم کورٹ جا رہے ہیں اس کے پیچھے ایک مقصد ہے کہ ہم آئین اور قانون کی عدلیہ سے تشریح چاہتے ہیں کہ کیا راستے روکنا ، سڑکیں بند کرنا ، آنسو گیس چلانا، لاٹھی چارج کرنا، لوگوں پر بندوقیں چلانا اور نہتے لوگوں پر ظلم و بربریت کرنا جائز ہے ۔ اس کی عدلیہ کیسے تشریح کرتی ہے ۔ہم اس کو کورٹ میں اسلئے چلینج کررہے ہیں کہ کرپٹ حکمران اور اُنکے حواری پاکستانیوں سے کس طرح پیش آتے ہیں ۔

یہ ہمارے مستقبل کی بات ہے ۔ہم نے تو بہت کچھ سہہ لیا لیکن ہم آئندہ نسلوں کو ایک مستقبل دینا چاہتے ہیں جس میں ادارے مضبوط ہوں گے ۔ قانون کی حکمرانی ہو ۔آئین کی کوئی اپنی مرضی کے مطابق تشریح نہ کرسکے، کوئی سڑکیں اور راستے بند نہیں کر سکے، کسی پر آنسو گیس اور شیلنگ نہیں ہو گی ۔کسی کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت نہیں کرنی ہوں گی۔ ہر کوئی قانون کے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے آزاد ی کے ساتھ اپنی سرگرمیاں اور زندگی گزار سکے گا۔

ہم کرپٹ حکمرانوں اور اسکے حواریوں کو قانون کی روشنی میں اُنکی عوام دشمنی پر اُس کی تلاشی کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔یہ تلاشی کا حق ہم عدلیہ کے ذریعے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب مارشل لاء کی پیداوار کو یہ ڈر ہوگا کہ عوام دشمنی پر قانون حرکت میں آئے گا اور یہ قانون امیر و غریب کیلئے ایک ہو گا۔ کسی کو کسی کا حق غصب کرنے کی اجازت نہیں ہو گی تب ہی ہم جا کر انصاف پر مبنی ایک فعال معاشرہ تشکیل دے سکیں گے جس میں ہر کسی کو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے حقوق حاصل ہونگے۔

انہیں پتہ ہو گا کہ انکی ذمہ داری کیا ہے اورانکے حقوق کیا ہیں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ کرپٹ حکمران اداروں کے پیچھے نہیں چھپ سکتے ۔ انہوں نے صوبے کا راستہ وفاق سے توڑ کر قانون اپنے ہاتھ میں لیا۔ایک فورس کے آئینی اور قانونی اختیار کو عوام کے خلاف استعمال کیا۔اس پر ان کے غیر قانونی اقدامات اٹھانے پر عدالت سے رجو ع کررہے ہیں۔

پرویز خٹک نے کہا کہ تاکہ آئندہ کوئی غیر قانونی کام کرنے سے پہلے دس بار سوچے۔ پرویز خٹک نے کہا کہ ہم نے پاکستان کو اکھٹا رکھنے کیلئے سڑکیں کھولیں ۔حکمرانوں نے سڑکیں بند کرکے قانون شکنی اور آئین شکنی کی۔اس پر تو تلاشی بنتی ہے ۔ کیا یہ حکمران پنجاب کا راستہ مرکز سے یا اسلام آباد سے توڑ سکتے ہیں اس میں پختون اور پنجابی کا سوال کہاں سے پیدا ہوتا ہے ۔

ہم پرامن پاکستانی ہیں ۔ہم سچ بول رہے ہیں ۔سچ بولنے پر اُنہیں تکلیف ہو رہی ہے ۔یہ ملک عوام کا ہے۔ یہ ان کے مستقبل کی بات ہے۔ یہ غنڈہ گردی ، ڈکٹیٹر شپ اور جمہوریت کے لبادے میں کالے کرتوتوں کے خلاف آواز ہے ۔ انھوں نے کہا کہ چوری کرنے والے سمجھ لیں کہ پختون اور پنجابی کارڈ کی بات نہیں ہے ۔میں خود ساری عمر پنجاب میں تعلیم حاصل کرتا رہا ہوں ۔

پنجاب میں میرے زیادہ دوست ہیں میری رشتہ داری پنجاب میں ہے ۔یہ ڈرامے کرنا چھوڑ دیں ۔ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ نے کہاکہ پختون روایات کے مطابق کسی کا راستہ روکنا انتہائی غلط سمجھا جاتا ہے۔ عمران خان نے صرف اسلام آباد بند کرنے کی بات کی تو اس پر پورا کرپٹ مافیایک زبان ہو کر پروپیگنڈہ کرتا رہا اور اُس کو قانون شکنی اور آئین کے خلاف قراردیا اور یہ کرپٹ حکمران نے خود اسلام آبادسمیت پورے ملک کو بند کردیا کیا یہ آئینی اقدام ہے یہ دوہرا معیار کیوں۔

انھوں نے کہا کہ ہمارا ہر عمل میڈیا نے پوری دُنیا میں پھیلایا اورہمارے خلاف ہونے والے ظلم و زیادتی بھی میڈیا کی آنکھ سے پوری دُنیا دیکھتی رہی ۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہمارے لیڈر کا محاصرہ کیا گیا ۔ اُسے دشمن کے طور پر پیش کیا جار ہا تھا ۔ وہ عوام کے دلوں پر راج کرتا ہے۔یہ کرپٹ حکمرانوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا ۔ ہمیں طالبان اور دہشت گردوں سے تشبیہ دی گئی ۔

ہم حقیقت تک پہنچنا چاہتے ہیں کہ کس کا رابطہ کس کے ساتھ تھا اور ہے۔یہ ڈھکی چھپی باتیں نہیں ۔ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ نے کہاکہ حکمرانوں کے اپنے خزانے بڑھ رہے ہیں جبکہ ملک پر قرضوں کا بوجھ کئی گنا زیادہ ہو گیا ہے۔ ہم نے اداروں سے سیاسی مداخلت ختم کی ۔ ہم نے ایسی روایات قائم کیں کہ اب خیبرپختونخوا میں کوئی کرپشن اور غیر قانونی کام نہیں کر سکتا اورنہ اس کیلئے اداروں کو استعمال کر سکتا ہے ۔

ہماری پولیس آزاد ہے۔یہ ریکارڈ پر ہے کہ مسلم لیگ ن کے جلوس کو راستہ روکنے پر میں نے آئی جی پی کو کہا تھا کہ آئین اور قانون کے مطابق چلیں اور میرٹ پر فیصلے کریں۔ انھوں نے کہا کہ ہم فرنٹیر کانسٹیبلری کی تنخواہوں میں اضافہ کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ چھ سال سے میں فرنٹیر کانسٹیبلری کیلئے مطالبات کررہا تھا۔ ہمیں کیا پتہ کی ہمارے دھرنے کی وجہ سے ان کو مرعات ملیں گی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ابھی میں لندن میں سکارٹ لینڈ یارڈ سے کمیونٹی پولسنگ پر تفصیلی بریفینگ اور پوچھ گچھ کر چکا ہوں کیونکہ ہم فورس کو سیاسی اثرو رسوخ سے آزاد اور جرائم سے لڑنے کیلئے پروفیشنل فورس بنا نا چاہتے ہیں۔ اُن کے مطابق سکارٹ لینڈ یارڈ کی ذمہ داریوں میں حکومت کی مداخلت کا تصور نہیں ۔اسلئے ہم اُس ماڈل کو یہاں متعارف کرا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف ہمارے خلاف فورسسز کا کس طرح استعمال ہوا۔

وہ قابل مذمت ہے ۔ میں نے توا پنے کارکنوں کو منظم رکھا اُنہیں قانون ہاتھ میں لینے سے روکے رکھا ۔جب میں سفر شروع کر رہا تھا تو ریکارڈ اُٹھا کر دیکھ لیں میری پہلی تقریر سے لیکر آخر ی تقریر تک عوام کو تنظیم اور اتحاد کا درس تھا اور ملک کی وحدت اورملک کی ترقی کی بات تھی ۔ میں نے تو یہاں تک کہا تھا کہ اگر کسی کے پاس چاقو بھی ہے تو وہ پھینک دے ورنہ اس کے خلاف قانون حرکت میں آئے گا کیونکہ ہم ایک نئے پاکستان کی آواز تھے ۔

وزیراعلیٰ نے کہاکہ ہمارے صوبے میں احتساب کاایک شفاف نظام قائم ہو چکا ہے ۔اس کا ڈی جی نہ میری مرضی سے لگ سکتا ہے اور نہ اپوزیشن کی مرضی سے ۔ ہم نے اپوزیشن کو برابر کے فنڈز اور حقوق دیئے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ عمران خان کے ہوتے ہوئے کوئی کرپشن کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ اس صوبے کا ماضی لوٹ مار ، سرکاری وسائل پر ڈاکے ڈالنے ، کرپشن ، اقرباء پروری اوربد ترین حکمرانی تھا جبکہ اس کا آج شفاف ہے ۔ سیاسی مداخلت نہیں ہے ۔ ادارے ڈیلیورکر رہے ہیں یہ فرق اچھی حکمرانی کی غمازی کرتا ہے۔