بھارت :8 قیدیوں کو جیل سے نکال کر جعلی مقابلہ میں مارنے کا معاملہ پولیس کے گلے کی ہڈی بننا شروع ہوگیا

پورے ہندوستان مسلمانوں میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے، شاہی امام سید احمد بخاری بھی سخت مشتعل ، سکیورٹی اداروں پر شدید تنقید

ہفتہ 5 نومبر 2016 11:35

نئی دہلی( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔5نومبر۔2016ء )بھارت میں گذشتہ دنوں کالعدم تنظیم ”سیمی“ کے 8قیدیوں کو جیل سے نکال کر” جعلی پولیس مقابلے “ میں مارے جانے کے خلاف پورے ہندوستان مسلمانوں میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے ، ان 8مسلمان نوجوانوں کی شہادت نے ہندوستان کے شاہی امام سید احمد بخاری کو بھی سخت مشتعل کر دیا ہے ،انہوں نے 8نوجوانوں کی شہادت پر بھارتی سیکیورٹی اداروں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور نام نہاد بھارتی جمہوریت اور یہاں اقلیتیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر کئی سوالیہ نشان اٹھا دیئے ہیں۔

ہندوستان کے شاہی امام سید احمد بخاری کالعدم مسلم تنظیم ”سیمی “ کے 8نوجوان قیدیوں کے” مبینہ اِن کاوٴنٹر “ کو شدید ہدف تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ بھوپال کے محافظو ں نے اقلیتی فرقے کے 8افراد کو ماورائے عدالت قتل کر کے حساس دل رکھنے والے تمام انسانوں کو شدید تکلیف پہنچائی ہے،پورے ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف شدید اشتعال انگیزی کاماحول بنایا جارہا ہے، ملک کا سماجی ، اقتصادی اورسیاسی نظام ایک زبردست کشمکش اور اتھل پتھل سے دوچارہے،آج انڈیا عجیب نازک دورسے گزررہاہے،ہرفرقے اورطبقے کے لوگ ایک عجیب وغریب ذہنی الجھن میں مبتلا ہیں،ایسامحسوس ہوتاہے کہ مزید کچھ ہونے والاہے،مگریہ نہیں معلوم کہ جوہونے والاہے وہ کیاہوگا؟ملک ایسے لمحات سے گزررہاہے جن لمحات میں بڑی بڑی تبدیلیاں آتی ہیں اورحالات ایساپلٹاکھاتے ہیں کہ زندگی کے دھارے بدل جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ آج ہندستانی جمہوریت کے سامنے ملک کے تمام باشندوں کے ساتھ برابری کے سلوک کی پالیسی اپنے ، شرافت اور تہذیبی اقدار اور امن و امان کے تعلق سے اہم سوالات کھڑے ہوگئے ہیں، لاقانونیت، تشدد اور بربریت کی قوتوں کے سامنے سب نے سرجھکادیاہے، ملک کی زمین بے قصورافرادکے خون سے رنگی جارہی ہے،ایسے حالات میں مہذب ملک کے شہری کی حیثیت سے ہماراکیاکردار ہو ؟اسکے بارے میں ہمیں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

مولانا احمد بخاری نے کہا کہ آج سب سے بڑاسوال یہ ہے کہ یہاں انصاف ہوگایاناانصافی ؟ آزادی یا مساوات ہوگی یاجبر؟ اور تعصب ،ایمانداری اور شرافت رہے گی یا بے ایمانی اوردرندگی؟ کیا انڈیا میں اب اامن وامان برقرار رہ سکے گا ؟ انہوں نے سوال کیا کہ اس ملک میں وطن پرستی اور حب الوطنی پر صرف ایک فرقے اور طبقے کی اجارہ داری ہوگی یا اس پر تمام فرقوں اورطبقوں کا حق ہوگا؟انڈیا کو ترقی کی راہ پر لے جانے کے لئے قومی ہم آہنگی اور فرقہ وارانہ خیر سگالی لازم ہے، اس لئے اب ملک کے عوام اور حکومت کو اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے کہ ملک کے تمام شہریوں کے ساتھ انصاف اور قانونی بالادستی کس طرح قائم کی جائے؟انہوں نے کہا کہ آپ نے اخبارات اور ٹی وی کے ذریعے دیکھاہوگاکہ مدھیہ پردیش کی بھوپال جیل توڑکرفرارہونے والے زیر سماعت مقدمے کے آٹھ قیدیوں کاجس طرح انکاوٴنٹرہواہے،اس پر معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والاشخص بھی سوال کھڑا کر سکتا ہے۔

پولس اور انتظامیہ جس بھونڈے طریقے سے اسے ”مقابلہ “ قراردے رہی ہے اس سے ان کے جھوٹ کا پردہ فاش ہواہے،اس معاملے میں ٹی وی چینلوں پر مسلسل نئے نئے ویڈیوز سامنے آرہے ہیں،اس سے عیاں ہورہاہے کہ یہ انکاوٴنٹر فرضی ہے اور انسانیت کادرد رکھنے والے ہرانسان کے ذہن میں یہی سوال کھڑاہورہاہے کہ انہیں ماراگیاہے،لیکن افسوس تویہ ہے کہ سیکولرہندوستان جس کا سارانظام قانون اورآئین پر منحصر ہے،جب تک عدالت کسی کو مجرم نہ ٹھہرادے ، کسی کو مجرم قرارنہیں دیا جاسکتا، ان آٹھوں قیدیوں کے مقدمات زیر سماعت تھے اور ان کو عدالت نے مجرم قرارنہیں دیا تھا، اس کے باوجود ان 8 قیدیوں کو دہشت گردکہاجارہاہے،اس تشہیر سے پورا ملک شش وپنچ کے عالم میں ہے،افسوس تواس بات کاہے کہ اس ملک میں ظالم کو ظالم اور ظلم کو ظلم نہیں کہاجاسکتا، ایسی صورت میں ظلم اور ظالم کو تقویت ملتی ہے۔

مولانا بخاری کا کہنا تھا کہ آج عدالت اورقانون اس بات سے شرمندہ نظر آتا ہے کہ اگرپولس ہی مجرموں کا فیصلہ کرے گی ،توپھر ملک میں عدالتوں کی کیا ضرورت ہے؟انہوں نے واضح کیا کہ ان قیدیوں کے وکیل کاکہناہے کہ ان کے مقدمات اتنے کمزورتھے کہ وہ جلد باعزت رہاہونے والے تھے، ایسی باعزت رہائی کو چھوڑکروہ آٹھوں قیدی فرارہونے کی کیوں سوچتے؟انہوں نے سوال کیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ 8 نوجوان محض چادرکی رسی کے ذریعے 35۔

40 فٹ کی جیل کی چہاردیواری پھاند کرفرارہوگئے اورجیل سے باہر آتے ہی نئے لباس اورنئے جوتے پہن کر ایک ساتھ 12 کلو میٹر کاراستہ طے کرلیااورپھر ایسی پہاڑی پرپہنچ گئے جہاں نیچے کی طرف کھائی ہے اورگاوٴں والے بھی ہیں اورپھر دیوالی کی روشن رات کو جیل سے فرارہونابھی شک کے دائرے میں ہے اوربھوپال کے پاس 8۔9 گھنٹے چھپے رہنابھی عقل سے بعیدہے۔

12گھنٹے میں مفررورقیدی آسانی کے ساتھ بھوپال سرحد پارکرسکتے تھے،لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ یہ آٹھوں مفرور قیدی بھوپال سے تقریباً 15 کلو میٹر کے فاصلے پر اکھٹے موجود تھے جس سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ باقاعدہ منصوبہ بندی سے پہلے انہیں اس جگہ پر اکھٹا کیا گیا اور پھر فرضی انکاوٴنٹر کا ماحول بناکر ان سب کو بے رحمی سے مارا گیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ کہا جارہاہے کہ یہ قیدی بھاگنے کے بعد بڑی واردات کرنے والے تھے اگریہ پولس کومعلوم تھا کہ یہ بڑی واردات انجام دینے والے تھے تویہ بھی معلوم ہوناچاہئے تھاکہ یہ جیل سے فراربھی ہونے والے ہیں، کہاگیاہے کہ قیدیوں کے پاس ہتھیار تھے جب کہ اے ٹی ایس کے چیف نے کہاکہ ان کے پاس ہتھیارنہیں تھے،جیل میں سی سی ٹی وی کیمرے بھی لگے تھے ، مگر وہ کام نہیں کررہے تھے، اتنی اہم جیل میں سی سی ٹی وی کیمروں کا خراب رہنا اس پربڑاسوالیہ نشان لگتاہے۔

مولانا بخاری نے سوال کیا کہ جیل سے فرارہونے کے بعد انہیں کس نے نئے لباس اورنئے جوتے فراہم کئے؟ جب کہ کہایہ جارہاہے کہ ان قیدیوں کو رات میں یہ کہہ کراٹھایا گیا تھا کہ انہیں دوسری جیل میں منتقل کیاجارہاہے، ا س سے اندازہ ہوتا ہے کہ پولس اورجیل حکام نے ہی ان قیدیوں کو نئے لباس اور جوتے پہنائے۔انہوں نے الزام لگایا کہ اترپردیش اسمبلی انتخابات میں اکثریتی ووٹوں کی صف بندی کرنے کے مقصد سے بھوپال انکاوٴنٹر کو انجام دیا گیا تاکہ اکثریتی فرقوں کے ذہن میں یہ بات ڈالی جاسکے کہ مسلم طبقے کے لوگ ملک کے آئین ، قانون اور ملک کے مفادات کو نظر انداز کرتے ہیں۔

امام بخاری نے بھوپال انکاوٴنٹر کے سلسلہ میں ان تمام سوالات کے دوران حکومت سے سپریم کورٹ کے کسی ریٹارئرڈ جج کے ذریعہ اس پورے معاملے کی تفصیلی انکوائری کرائی جانی چاہئے تاکہ سچائی عوام کے سامنے آسکے۔

متعلقہ عنوان :