پانامہ لیکس :عدالت کسی کے ٹی او آرز کی پابند نہیں اپنے بنائے گی،سپریم کورٹ

پانامہ ایشو پر میڈیا پر فحاش گالیاں دی جا رہی ہیں ،یہ عوامی مفاد اور بنیادی حقوق کا معاملہ ہے عدالت ترجیحی بنیادوں پر کارروائی چلانا چاہتی ہے ،چیف جسٹس انورظہیر جمالی کے ریمارکس سپریم کورٹ نے پانامہ لیکس کے حوالے سے درخواستیں قابل سماعت قرار دیدیں وزیراعظم کے بچوں کو پیر تک جواب جمع کرانے کی مہلت ،وزیراعظم نے تحریر ی جواب اور فریقین نے ٹی آراوز جمع کرا دیئے، تحقیقات کیلئے ایک رکنی کمیشن تشکیل طارق اسدسمیت تین مدعاعلہیان کی درخواست ناقابل سماعت قرار

جمعہ 4 نومبر 2016 11:05

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔4نومبر۔2016ء)سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے پاناما لیکس کے حوالے سے درخواستوں کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے حکومتی وکیل کو وزیراعظم کے بچوں بارے جواب جمع کرانے کی پیر تک مہلت دیدی ،وزیراعظم نے اپنا تحریر جواب اور فریقین نے ٹی او آرز جمع کرا دیئے جبکہ عدالت عظمیٰ نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے ایک رکنی کمیشن کے قیام کا اعلان کردیا،سپریم کورٹ طارق اسد ایڈووکیٹ، اسد کھرل اور کوکب اقبال کی درخواستیں ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کردیں۔

کیس کی سماعت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس آصف سعید کھوسہ ، جسٹس امیر ہانی مسلم ، جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بنچ نے کی ۔تحریک انصاف ، جماعت اسلامی اور عوامی مسلم لیگ کی جانب سے دائر کردہ درخواستوں کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم نواز شریف کے خلاف درخواستوں پر سماعت شروع کی تو چیف جسٹس نے کہاکہ یہ عوامی مفاد اور بنیادی حقوق کا معاملہ ہے ،کسی نے عدالتی اختیار پر اعتراض نہیں کیا ، چیف جسٹس نے وزیراعظم کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے جواب جمع کرا دیا ہے جس پر وزیراعظم کے وکیل سلمان بٹ کا کہنا تھا کہ جن درخواستوں میں وزیراعظم فریق ہیں ان میں جواب جمع کرا دیا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وزیر اعظم کے جواب کی کاپیاں دیگر فریقین کو بھی فراہم کی جائیں۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس نے کہا کہ نیب ، ایف بی آر اور ایف آئی اے کے جواب آگئے ہیں ، مسٹر سلمان آپ نے تحریری طورپر جواب جمع کرا دیئے ہیں ۔چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدالت کسی کے ٹی او آرز کی پابندی نہیں ، عدالت اپنے ٹی او آرز بنائے گی ، پانامہ لیکس کے حوالے سے اب تو میڈیا پر فحاش گالیاں دی جا رہی ہیں ، عدالت ترجیحی بنیادوں پر کارروائی چلانا چاہتی ہے ،اس حوالے سے ہمیں بتایا جائے کہ کمیشن آج ہی بنا دیں یا حسن ، حسین اور مریم جواب کے جواب کا انتظار کریں ۔

اگر کوئی درخواست گزار کوئی تجویز دینا چاہے تو وہ دے سکتا ہے ۔چیف جسٹس اپنے ریمارکس میں کہا کہ میڈیا جس طرح کی رپورٹنگ کررہاہے اس سے ادارے کو نقصان پہنچا رہا ہے ، ہم کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو میڈیا تبصرے شروع کردیتا ہے ، ہم فریقین کے ضابطہ کار کے پابند نہیں ۔وزیر اعظم کا جواب سپریم کورٹ میں نواز شریف کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے پڑھ کر سنایا۔

وزیر اعظم کی جانب سے داخل کرائے جانے والے جواب میں عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ وہ بیرون ملک فلیٹس اور دیگر بتائی گئی جائیدادوں کے مالک نہیں ہیں۔یہ بھی بتایا گیا کہ وزیر اعظم نواز شریف آف شور کمپنیوں کے مالک نہیں ہیں اور باقاعدگی سے ٹیکس قانون کے مطابق ادا کرتے ہیں۔وزیر اعظم کے جواب میں یہ بھی کہا گی اکہ 2013کے گوشواروں میں ان کے تمام اثاثے ڈکلیئر ہیں اور ان کا کوئی بچہ ان کے زیر کفالت نہیں ہے۔

وزیر اعظم نے اپنے جواب میں موقف اپنایا کہ آرٹیکل 62اور 63کے تحت انہیں نااہل نہیں قرار دیا جاسکتا۔عدالت نے وزیر اعظم کے بچوں کی جانب سے جواب داخل نہ کرائے جانے پر برہمی کا اظہار کیا اور وزیر اعظم کے وکیل سلمان اسلم بٹ کی سرزنش کی۔سلمان اسلم بٹ نے عدالت سے درخواست کی کہ انہیں وزیر اعظم کے بچوں کے جواب داخل کرانے کے لیے 7روز کا وقت دیا جائے۔

اس موقع پر حامد خان نے کہاکہ وزیراعظم اور ان کے اہلخانہ کے وکیل کو جواب جمع کرانے کے لئے مزید وقت نہ دیا جائے ان کو پہلے ہی بہت وقت دیا جاسکتا ہے ،فریق مخالف کو ٹائم نہ جائے ۔حامد خان نے کہاکہ جمع داخل نہ کرانے کا مطلب یہ ہے کہ الزامات قبول کئے جارہے ہیں ۔جس وقت وزیراعظم کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے جواب جمع کرانے کے لئے وقت مانگا تو کمرہ عدالت قہقوں سے گونج اٹھا ،جسٹس عظمت سعید نے وکیل سے استفسار کیا کہ وزیر اعظم کے تین بچوں کی جانب سے جواب کیوں جمع نہیں کرایا؟ آپ ہمارا وقت ضائع کر رہے ہیں، اصل فریق کا تو جواب نہیں جمع کرایا گیا، کیا آپ آئندہ سال جواب جمع کرائیں گے؟سلمان اسلم بٹ نے موقف اختیار کیا کہ مریم صفدر، حسن اور حسین ملک سے باھر ہیں جواب داخل کرانے میں تھوڑا وقت لگے گا۔

اس پر جسٹس عظمت نے کہا کہ کیا آئندہ سال جواب جمع کرائیں گے؟ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ ملک میں جو موجود ہیں ان کا جواب تو جمع ہونے چاہیے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ قانون کے مطابق اگر جواب جمع نہ کرایا تو الزامات تسلیم کرلیں گے۔عدالت نے وکیل کی جانب سے 7روز کی مہلت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے مریم، حسن،حسین اور کیپٹن(ر)صفدر کے جواب پیر تک سپریم کورٹ میں جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ مریم صفدر وزیر اعظم کی کفالت میں نہیں ہیں جس پر جسٹس عظمت نے کہا کہ یہ بات لکھ کر دے دیں آپ کو دو بار مہلت د ے چکے ہیں ،آپ جواب جمع کرانا چاہتے ہیں ۔سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے پاناما لیکس کے حوالے سے دائر ہونے والی درخواستوں کو قابل سماعت قرار دے دیا۔عدالت نے موقف اپنایا کہ یہ معاملہ بنیادی انسانی حقوق کا ہے جبکہ رجسٹرار کی جانب سے درخواستوں پر لگائے جانے والے اعتراضات کو بھی مسترد کردیا۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیے کہ فریقین نے درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔عدالت نے یکم نومبر کو تمام فریقین کو پاناما اسکینڈل کی تحقیقات کے لیے اپنے ضابطہ کار(ٹی او آرز)جمع کرانے کی ہدایت کی تھی تاہم صرف عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے اپنے ٹی او آرز جمع کرائے۔شیخ رشید نے کہا کہ پورے ملک کا عدالت پر اعتماد ہے ، عدالت میڈیا کی پرواہ نہ کرے ، اس پر جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ میڈیا پر تو آپ آتے ہیں ،شیخ رشید نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعظم نے 2013ء کے اثاثوں کی ڈکلیریشن میں مریم نواز کو زیر کفالت ظاہر کررکھا ہے ۔

عدالت نے تمام درخواست گزاروں اور وزیر اعظم کے وکیل کو ہدایت کی کہ وہ پیر تک اپنے ٹی او آرز جمع کرائیں۔طارق اسد ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ یہ معاملہ دو جماعتوں کا نہیں بلکہ پوری عوام کا ہے ، عوام کے موقف کو سنا جانا چاہیے، سپریم کورٹ نے طارق اسد ایڈووکیٹ، اسد کھرل اور کوکب اقبال کی درخواستیں ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کردی۔ واضح رہے کہ کوکب اقبال نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ کیس کی کارروائی اردو زبان میں کی جائے ۔