عراقی افواج کو بڑی کامیابی ، دولت اسلامیہ کے آخری گڑھ موصل میں داخل

مزاحمت تاحال جاری ،شدت پسند تنظیم کے جنگجو عراقی افواج پر راکٹ گرنیڈوں سے حملہ کر رہے ہیں دولتِ اسلامیہ کے پاس اب اور کوئی راستہ نہیں ہے، انھیں یا ہتھیار ڈالنے ہوں گے یا مرنا ہوگا، عراقی وزیراعظم

بدھ 2 نومبر 2016 11:10

بغداد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔2نومبر۔2016ء)عراق کی افواج اسلامی شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے آخری گڑھ موصل کی حدود میں داخل ہو گئی ہیں جہاں انھیں شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ دولت اسلامیہ کے خلاف کارروائی میں شریک افواج کے ہمراہ ہیں، کہنا ہے کہ عراقی افواج کو موصل میں سخت مزاحمت کا سامنا ہے اور شدت پسند تنظیم کے جنگجو عراقی افواج پر راکٹ گرنیڈوں سے حملہ کر رہے ہیں۔

وزیراعظم حیدر العبادی نے سرکاری ٹی وی پر جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا ہے کہ دولتِ اسلامیہ کے پاس اب اور کوئی راستہ نہیں ہے، انھیں یا ہتھیار ڈالنے ہوں گے یا مرنا ہوگا۔عراقی فوج موصل کی مشرقی حد سے تقریباً ایک کلومیٹر دور ہے اور شہر میں داخل ہونے کی تیاری کر رہی ہے۔اس کے علاوہ شہر کے جنوب سے بھی عراقی فوج کی پیش قدمی جاری ہے۔

(جاری ہے)

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’ہم داعش کے گرد گھیرا تنگ کر دیں گے اور انشااللہ سانپ کا سر بھی کاٹ دیں گے۔

ان کے پاس نکلنے یا فرار ہونے کا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔‘حیدر العبادی عراقی فوج کے کمانڈر ان چیف بھی ہیں۔ شہر میں دولتِ اسلامیہ کی مزاحمت بڑھ رہی ہے۔موصل عراق میں دولتِ اسلامیہ کا آخری گڑھ ہے اور اس کے شدت پسندوں نے سنہ 2014 میں شہر پر قبضہ کیا تھا۔موصل میں ہی دولت اسلامیہ کے رہنما ابو بکر البغدادی نے عراق اور شام میں اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں خلافت کا اعلان کیا تھا۔

موصل کو دولت اسلامیہ کے قبضے سے آزاد کروانے کے لیے منصوبہ بندی کئی ماہ سے جاری تھی اور گذشتہ ہفتے عراقی توپ خانوں نے موصل پر گولہ باری کا آغاز کیا۔ جس کے ساتھ ہی اس جنگ کا آغاز ہوگیا۔عراقی اور اتحادی افواج اور کرد پیش مرگاہ کے 30 ہزار جوان اس کارروائی میں حصہ لے رہے ہیں۔موصل میں کارروائی کے آغاز پر اقوامِ متحدہ نے شہر میں محصور 15 لاکھ افراد کے تحفظ کے حوالے سے 'شدید خدشات' کا اظہار کیا ہے۔عراقی حکام کا کہنا ہے کہ موصل پر عراقی افواج کا دوبارہ قبضہ ہونا درحقیقت عراق میں دولتِ اسلامیہ کی مکمل شکست کے مترادف ہوگا۔

متعلقہ عنوان :