داعش کے ظلم کا شکار عراقی خواتین کے لیے یورپ کا اعلیٰ ترین اعزاز

سخاروف انعام برائے آزادی اظہار ایک روسی سائنسدان آندرے سخاروف کی یاد میں دیا جانے والا انعام ہے

ہفتہ 29 اکتوبر 2016 11:21

اسٹارسبرگ( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔29اکتوبر۔2016ء ) داعش کی قید سے رہائی پانے والی دو یزیدی خواتین کو یورپی یونین کی پارلیمنٹ کی جانب سے سخاروف پرائز سے نوازا جارہا ہے۔سخاروف انعام برائے آزادی اظہار ایک روسی سائنسدان آندرے سخاروف کی یاد میں دیا جانے والا انعام ہے۔ اس کا ا آغازدسمبر 1988 میں یورپی پارلیمنٹ نے ان افراد کے لیے کیا جنہوں نے آزادی اظہار، انسانی حقوق کی بالادستی اور تشدد کے خاتمے کے لیے اپنی زندگیوں کو وقف کردیا اور نتیجہ میں انہیں حکمران طبقوں یا حکومت کی جانب سے سختیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

رواں برس یہ ایوارڈ دو یزیدی خواتین نادیہ مراد طحہٰ اور لامیا حاجی بشر کو دیا جائے گا۔ یہ دونوں خواتین داعش کی ظالمانہ قید سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئیں جس کے بعد اب یہ عراق کے اقلیتی مذہب یزید کو بچانے کی کوششیں کر رہی ہیں۔

(جاری ہے)

اس انعام کے لیے ترکی کے ایک جلا وطن صحافی کان دندار اور کریمیا میں اقلیتی طبقے کے حقوق کے لیے سرگرداں سماجی کارکن مصطفیٰ جمیلاو کو بھی نامزد کیا گیا تاہم انعام کی حقدار یہ دونوں خواتین قرار پائیں۔

گزشتہ برس یہ انعام سعودی بلاگر رائف بداوی کو دیا گیا تھا۔ بداوی نے سنہ 2008 میں سعودی عرب میں ’لبرل سعودی نیٹ ورک‘ کے نام سے ایک آن لائن فورم تشکیل دیا تھا جس کا مقصد سعودی عرب میں مذہبی اور سیاسی معاملات پر بات چیت کی حوصلہ افزائی کرنا تھا۔بداوی کی اس کوشش کو توہین مذہب کا نام دیا گیا اور اس کی پاداش میں اسے دس سال قید اور ایک ہزار کوڑے مارے جانے کی سزا سنائی گئی۔

عراق کے اقلیتی مذہب سے تعلق رکھنے والی 23 سالہ نادیہ کی زندگی اس وقت ایک بھیانک خواب بن گئی جب 2014 میں داعش نے عراق کے یزیدی قبیلے کو کافر قرار دے کر عراقی شہر سنجار کے قریب واقع ان کے اکثریتی علاقہ پر حملہ کیا اور ہزاروں یزیدیوں کو قتل کردیا۔داعش کے جنگجو سینکڑوں ہزاروں یزیدی خواتین کو اغوا کر کے اپنے ساتھ موصل لے گئے جہاں ان کے ساتھ نہ صرف اجتماعی زیادتی کی گئی بلکہ وہاں ان کی حیثیت ان جنگجوٴں کے لیے جنسی غلام کی ہے۔

اغوا ہونے والی خواتین میں ایک نادیہ بھی تھیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ داعش کے جنگجوٴں نے ان کے ساتھ کئی بار اجتماعی زیادتی کی جبکہ انہیں کئی بار ایک سے دوسرے گروہ کے ہاتھوں بیچا اور خریدا گیا۔وہ کہتی ہیں، ’میں خوش قسمت ہوں کہ وہاں سے نکل آئی۔ مگر وہاں میری جیسی ہزاروں لڑکیاں ہیں جنہیں بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں ملا اور وہ تاحال داعش کی قید میں ہیں۔؂

متعلقہ عنوان :