وزارت پانی و بجلی کا صارفین کے بلوں میں اضافی یونٹس ڈالے جانے کا انکشاف

صارفین سے اضافی یونٹس کی مد میں اربوں وصول کئے جاتے رہے ہیں اوور بلنگ کی وجہ سے ڈسکوز میں رکوری کی شرح میں بھی کمی ہوئی تھی، ایڈیشنل سیکرٹری وزارت پانی و بجلی عمر رسول نے بے بسی کا اظہار کمیٹی ممبران سے بجلی چوریی پر قابو پانے میں مدد مانگ لی بجلی چوری پر قابو پانا اداروں کا کام ہے تاکہ منتخب نمائندوں کا اداروں کو اپنی کارکردگی بہتر کرنا ہوگی،کنوینٹر کمیٹی غلام مصطفیٰ شاہ

جمعہ 21 اکتوبر 2016 10:57

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔21اکتوبر۔2016ء) وزارت پانی و بجلی کی جانب سے صارفین کے بلوں میں اضافی یونٹس ڈالے جانے کا انکشاف ہوا ہے، صارفین سے اضافی یونٹس کی مد میں اربوں روپے وصول کئے جاتے رہے ہیں، اوور بلنگ کی وجہ سے ڈسکوز میں رکوری کی شرح میں بھی کمی ہوئی تھی، جبکہ ایڈیشنل سیکرٹری وزارت پانی و بجلی عمر رسول نے بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کمیٹی ممبران سے بجلی چوریی پر قابو پانے میں مدد مانگ لی جس پر کنوینٹر کمیٹی غلام مصطفیٰ شاہ نے ایڈیشنل سیکرٹری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بجلی چوری پر قابو پانا اداروں کا کام ہے تاکہ منتخب نمائندوں کا اداروں کو اپنی کارکردگی بہتر کرنا ہوگی، اور اپنی تمام تر توجہ اپنے کام پر کرنا ہوگی، قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی برائے پانی و بجلی کا اجلاس قائم مقام کنوینر سید غلام مصطفیٰ شاہ کی زیر صدارت پاکستان سیکرٹریٹ میں منعقد ہوا، اجلاس میں سیپکو اور پپکو ڈسکو کے مسائل زیر بحث لائے گئے، وزارت پانی و بجلی حکام اعتراف کیا کہ پیپکو میں ماہانہ 4کروڑ سے زائد اووربلنگ کی جارہی تھے، جسے ختم کیا گیا ہے، اور مزید بھی کوشش کر رہے ہیں کہ اووربلنگ ختم کی جائی، جس پر ممبر قومی اسمبلی کاظم علی شاہ نے کہا کہ پیر کوٹ میں سیلاب کی وجہ سے بستیاں ختم ہو گئی تھیں لیکن ان کو بجلی کے بل پھر بھی ملتے رہے واپڈا کی کارکردگی ایسی نہیں ہے جس کی تعریف کی جائے، وزارت پانی و بجلی حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ سیپکو پپکو ریجن میں کنڈا سسٹم بہت زیادہ تھا اور رکوری بھی بہت کم تھی جس پر قابو پانے کیلئے تمام تر کوشش کی جارہی ہیں اگر ممبران پارلیمنٹ ہماری مدد کریں تو اس پر قابو پایا جا سکتا ہے، جس پر کمیٹی نے کہا کہ ممبران کا کام قانون سازی کرنا ہوتا ہے اور قانون نافذ کرنا اداروں کا کام ہے ورنہ اداروں کی کیا ضرورت ہے پھر کنوینر کمیٹی نے وزارت پانی و بجلی حکام پر برس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بہتری علاقوں میں اگر ٹرانسفارمر خراب ہوتا ہے تو وہ فوراً ٹھیک کروایا جاتا ہے جبکہ دیہی علاقوں میں بھاری رقم سے وصول کئے جاتے ہیں، جس پر کوئی بھی ایکشن نہیں لیا جاتا اور اس کے علاقہ پرائیویٹ ٹرانسفارمروں کی چوری کا سلسلہ بھی عروج پر ہے اور وہ ٹرانسفارمروں کو مل نکال کر فروخت کر دیتے ہیں اور اس پر کوئی بھی ایکشن نہیں ہوتا جس پر وزارت پانی و بجلی حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ ایسے گروہوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جارہی ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ واپڈا اہلکار بھی اس میں ملوث ہیں، اور موبائل ریڈنگ سسٹم میں گھپلہ کرنے والے لیسکو سے 60میٹر ریڈروں کو بنا دیا تیا ہے جبکہ مظفر گڑھ اور لیہ سے بھی ایکسن ایس ڈی او کو فارغ کر دیا گیا ہے، لیسکو پیسکو میں موبائل ریڈنگ سسٹم میں بہتری لائی جارہی ہے، اور اس کی کارکردگی دسمبر تک 70فیصد ہو جائیگی، سپکو حکام نے نئے ٹرانسفارمروں کی تنصیب میں دیر ہونے کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا کہ سپیکو ڈسکو میں ٹرانسفارمر کھمبوں اور کنڈ کڑوں کی کمی کا سامنا ہے جس کو پورا کرنے کیلئے3ماہ لگیں گے اور امید کی جاتی ہے کہ بعد اسے مکمل کرکے ڈسکو کارکردگی بہتر کردی جائیگی، حکام نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ سیپکو ہیسکو میں بجلی چوری کرنیوالوں کے خلاف کارروائیاں کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ مقامی خود بھتہ خوری میں ملوث ہوتے ہیں، جس پر کنوینر کمیٹی نے وزارت پانی وبجلی حکام کو سفارش کی کہ سیپکو ہیسکو میں اپنی کارکردگی بہتر بنائیں تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے اور اپنے لوگ جو کہ بجلی چوری میں ملوث نہیں ہیں ان کو فائدہ پہنچ سکے۔

متعلقہ عنوان :