قومی اسمبلی کے اکاوٴنٹس میں کروڑوں روپے کی بے ضابطگیاں، چار ارکان قومی اسمبلی نے بیرون ملک علاج پر ایک کروڑ 26 لاکھ روپے خرچ کیے،آڈٹ رپورٹ

بدھ 12 اکتوبر 2016 11:45

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔12اکتوبر۔2016ء)آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) کی جانب سے گزشتہ مالی سال اور اس سے پہلے کے سالوں کے قومی اسمبلی کے اکاوٴنٹس کی جانچ کی جس کے نتیجے میں مالی معاملات میں تقریباً 10 کروڑ 10 لاکھ روپے کی بے قاعدگیاں سامنے آئیں ہیں میڈیا رپورٹس میں آڈٹ رپورٹ کے مطابق چار ارکان قومی اسمبلی نے بیرون ملک علاج پر ایک کروڑ 26 لاکھ روپے خرچ کیے، تین ارکان اسمبلی نے نجی ہسپتالوں میں علاج کے حوالے سے خرچ کی گئی رقم بلا جواز واپس حاصل کی جبکہ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے کئی ارکان اسمبلی کو ہاوٴس الاوٴنس کی مد میں ناجائز طور پر 8 کروڑ 68 لاکھ روپے سے زائد رقم ادا کی۔

آڈٹ رپورٹ کے مطابق سابق اسپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے ’ناجائز طور پر بیرون ملک علاج پر آنے والے اخراجات کی رقم واپس مانگی‘۔

(جاری ہے)

رپورٹ کے مطابق 1996 میں کابینہ ڈویڑن نے فیصلہ کیا تھا کہ اب سرکاری خرچ پر بیرون ملک علاج معالجے کی سہولت کو ختم ہونا چاہیے جس کے بعد 2 فروری 1997 میں وزیر اعظم کی ہدایت پر عوامی نمائندوں اور سرکاری افسران کے حکومتی خرچ پر علاج کے انتظامات کرنے کی پالیسی ختم کردی گئی تھی۔

آڈٹ رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ وزیر اعظم سیکریٹریٹ کی جانب سے 6 اگست 2012 کو بیان جاری ہو اکہ ’اس وقت کی اسپیکر قومی اسمبلی نے مطلع کیا کہ ان کے امریکا میں قیام کے دوران کچھ طبی مسائل پیدا ہوگئے جس کے لیے فوری سرجری کی ضرورت تھی لہٰذا وزیر اعظم واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے کو یہ ہدایات جاری کرتے ہوئے خوشی محسوس کررہے ہیں کہ وہ ہسپتال کو ادائیگی کے لیے ضروری اقدامات کریں۔

۔۔۔اس کے بعد قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے ہیوسٹن میں قونصلیٹ جنرل آف پاکستان کو 27 لاکھ 40 ہزار روپے وزارت برائے خارجہ امور کے چیف اکاوٴنٹس آفیسر کے ذریعے ادا کیے‘۔آڈٹ رپورٹ کے مطابق یہ ادائیگی ماضی میں کیے گئے کابینہ ڈویڑن کے فیصلے اور وزیر اعظم کی ہدایات کی خلاف ورزی تھی۔جب اس حوالے سے ڈاکٹر فہمیدہ مرزا سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ انہیں کینسر کا عارضہ لاحق تھا اور جب وہ اسپیکر کے عہدے پر تھیں تو علاج پر آنے والے تمام اخراجات خود برداشت کیے۔

تاہم انہوں نے اس بات کو بھی تسلیم کیا کہ ’ممکن ہے جب میں بیرون ملک تھی تو حکومت نے بھی میرے علاج پر کچھ پیسے خرچ کیے ہوں اور پانچ سال تک اسپیکر قومی اسمبلی کے عہدے پر رہتے ہوئے مجھ پر کسی قسم کے الزامات نہیں لگے‘۔فہمیدہ مرزا کا مزید کہنا تھا کہ ’میں نے اب تک آڈٹ رپورٹ نہیں پڑھی لہٰذا اس معاملے پر مزید تبصرہ نہیں کرسکوں گی‘۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ دسمبر 2011 میں پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم کی رکن اسمبلی بشریٰ رحمٰن کو 43 لاکھ روپے ادا کیے گئے جب امریکا میں انہیں اچانک بائی پاس سرجری کرانی پڑی تھی۔رپورٹ کے مطابق بشریٰ رحمٰن نے وزیر اعظم سے درخواست کی تھی کہ بیرون ملک علاج پر خرچ ہونے والی رقم واپس کی جائے اور اس وقت وزارت صحت نے 43 لاکھ روپے کی ادائیگی جے لیے سمری وزیر اعظم کو بھجوائی تھی جس پر وزیر اعظم نے دستخط کردیے تھے۔

آڈٹ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ وزارت نے غیر قانونی طور پر یہ سمری وزیر اعظم کو بھیجی اور سفارش کی کہ ’اس معاملے کی مناسب طریقے سے چھان بین کی جاسکتی ہے‘۔اسی طرح تیسری غیر قانونی ادائیگی لندن میں آنکھ علاج کرانے والے رکن اسمبلی شہزادہ معین الدین کو 28 لاکھ 60 ہزار روپے کی گئی۔شہزادہ معین الدین چترال کے اہم سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق دور میں وزیر مملکت برائے سیاحت کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے کشمیر امور اور گلگت بلتستان کے چیئر میں بھی رہے۔

آڈٹ رپورٹ کے مطابق اس معاملے میں بھی کی جانے والی ادائیگی کابینہ اور وزیر اعظم کے فیصلوں کے خلاف کی گئی۔رپورٹ کے مطابق دسمبر 2011 میں ق لیگ کی سابق رکن اسمبلی بیگم شہناز شیخ کو 27 لاکھ روپے امریکا میں ریڑھ کی ہڈی کے علاج کے لیے دیے گئے۔آڈٹ کے مطابق شہناز شیخ سرکاری خرچ پر علاج کرنے کا حق نہیں رکھتی تھیں اور انہیں دوہری شہریت رکھنے پر سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل بھی قرار دیا گیا تھا۔

قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے 2 نومبر 2012 کو سابق رکن اسمبلی شہناز شیخ سے کہا کہ وہ ادا کی گئی رقم واپس کریں کیوں کہ سپریم کورٹ نے انہیں نا اہل قرار دے دیا ہے تاہم انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔آڈٹ رپورٹ میں شفارش کی گئی ہے کہ رقم شہناز شیخ سے واپس لے کر حکومتی خزانے میں جمع کرائی جائے۔رپورٹ کے مطابق ارکان اسمبلی صاحبزادہ سید مرتضیٰ امین، عبدالوسیم اور کشور زہرہ نے بھی غلط طریقے سے نجی ہستپال میں علاج پر خرچ ہونے والے رقم واپس حاصل کی۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ ان ارکان اسمبلی کو 16 لاکھ 70 ہزار روپے واپس کیے گئے حالانکہ انہوں نے پاکستان میں غیر مجاز طبی اداروں سے علاج کرایا تھا۔ہاوٴسنگ الاوٴنس کی مد میں 8 کروڑ 68 لاکھ 60 ہزار روپے کی ناجائز ادئیگیوں کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا کہ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے یہ رقم ارکان اسمبلی کو 14-2013 کے دوران ادا کی۔آڈٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ہاوٴسنگ الاوٴنسز ان ارکان اسمبلی کو ادا کیے گئے جنہیں پہلے ہی فیڈرل لاجز میں فرنشڈ رہاش گاہ الاٹ کی جاچکی تھی۔

یہ بات بھی سامنے آئی کہ پارلیمنٹ لاجز کا قیام 1974 کے ممبر آف پارلیمنٹ (سیلریز اینڈ الاوٴنسز) ایکٹ کے نفاذ کے بعد عمل میں آیا اور موجودہ قوانین میں ایسی کوئی شق نہیں جس میں ان ارکان پارلیمنٹ کو ہاوٴسنگ الاوٴنس جاری کرنے کی بات کی گئی ہو جنہیں پہلے ہی پارلیمنٹ لاجز میں گھر الاٹ کی جاچکے ہیں۔آڈٹ میں ہاوٴسنگ الاوٴنس کی مد میں فیڈرل لاجز میں گھر رکھنے والے ارکان اسمبلی کو جاری کی جانے والی رقم کو قانون کی ’خلاف ورزی‘ قرار دیا اور سفارش کی کہ ان سے 8 کروڑ 68 لاکھ 60 ہزار روپے واپس لیے جائیں۔

متعلقہ عنوان :