سعودی عرب اور ایران کے درمیان تلخ اور سخت الفاظ کا تبادلہ معمول بن گیا

سعودی عرب کے نائب ولی عہد حکومت سنبھالنے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں ، ایرانی جنرل

جمعہ 7 اکتوبر 2016 10:38

تہران (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔7اکتوبر۔2016ء)ایران کے ایک اہم جنرل نے کہا ہے کہ سعودی عرب کے نائب ولی عہد حکومت سنبھالنے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ دوسری جانب سعودی عرب کی بحری فوج نے آبنائے ہر مز میں جنگی مشقوں کا عمل مکمل کر لیا ہے۔سعودی عرب اور ایران کے درمیان تلخ اور سخت الفاظ کا تبادلہ ایک معمول خیال کیا جاتا ہے۔ اسی سلسلے میں ایک اہم ایرانی جنرل نے اپنے بیان میں کہا کہ سعودی عرب کے نائب ولی عہد حکومت سنبھالنے کی بیتابی میں کچھ بھی کرسکتا ہے ۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق ایران کے پاسدارانِ انقلاب کے جنرل قاسم سلیمانی کا یہ بیان سخت الفاظ کے تبادلے میں ایک نئی جہت کا مظہر ہے۔ایرانی نیم سرکاری نیوز ایجنسی کے مطابق پاسدارانِ انقلاب کے جنرل سلیمانی نے نائب سعودی ولی عہد پرنس محمد بن سلمان کے بارے میں یہ بیان اْس تعزیتی تقریب میں دیا جو اْس ایرانی جنرل کی یاد میں تھی جو شام میں اسد کی فوج کے ہمراہ لڑتے ہوئے شامی باغیوں کا نشانہ بنا تھا۔

(جاری ہے)

جنرل قاسم سلیمانی پاسدارانِ انقلاب کے نیم فوجی دستوں ’القدس فورس‘ کے سربراہ ہیں۔ایرانی جنرل نے اس بیان میں سعودی نائب ولی عہد پر یہ بھی الزام عائد کیا کہ انہوں نے روسی حکام کے ساتھ ایک ملاقات میں واضح کیا کہ اگر وہ ایران کے ساتھ اپنے تمام روابط ختم کردیتے ہیں تو ہر معاملہ ختم ہو جائے گا۔ اِس سے مراد موجودہ علاقائی تنازعے کا خاتمہ لیا گیا ہے۔

سلیمانی کے مطابق نائب ولی عہد انتہائی بے صبر اور جلد باز طبیعت کے حامل ہیں اور وہ سعودی بادشاہ کو ہلاک کرنے کی کوشش بھی کر سکتے ہیں۔اسی دوران ایران نے واضح طور پر سعودی حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ وہ اْس کی سمندری حدود سے دور رہے۔ یہ ایرانی بیان ایسے وقت میں دہرایا گیا ہے جب سعودی عرب کی بحری فوج نے آبنائے ہرمز میں جنگی بحری جہازوں اور بحری فوجی دستوں کے ساتھ زوردار جنگی مشقوں کا عمل مکمل کیا ہے۔

سعودی بحری جنگیں مشقیں اْس سمندری علاقے میں کی گئیں جسے ایران اپنی حدود خیال کرتا ہے۔ ان مشقوں میں معمول کا جنگی اسلحہ استعمال کیا گیا۔ سعودی نیوز ایجنسی کے مطابق ان مشقوں کا مقصد کسی بھی ممکنہ جارحیت کی صورت میں جوابی کارروائی کرتے ہوئے اْسے ناکام بنانا ہے۔ توقع کے برعکس ان مشقوں میں بحرین میں متعین امریکی نیوی کے ففتھ فلیٹ نے حصہ نہیں لیا۔

متعلقہ عنوان :