غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کی روک تھام کا ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور

بل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظورکیا گیا، مجرم کو معاف کرنے کی شق ختم،جرم کو ریاست کے خلاف جرم قرار دیا گیا مقتول کے ورثاء کی طرف سے دیت اور قصاص کے نام پر صلح کرنے کے بعد مجرم کو سزائے موت کی بجائے عمر قید کی سزا تجویز، وزیراعظم کی بل منظور ہونے پر مبارکباد

جمعہ 7 اکتوبر 2016 11:21

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔7اکتوبر۔2016ء) پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کی روک تھام کا ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کرلیا بل کی منظوری کے بعد قانون سے مجرم کو معاف کرنے کی شق کو ختم کردیا گیا ہے اور جرم کو ریاست کے خلاف جرم قرار دیا گیا ہے۔ بل میں یہ شق شامل کی گئی ہے کہ مقتول کے ورثاء دیت اور قصاص کے نام پر صلح کرنے کے بعد مجرم کو سزائے موت کی بجائے عمر قید کی سزا تجویز کی گئی ہے۔

یہ قانونی بل سابق سینیٹر سیدہ صغریٰ امام نے پیش کیا تھا جو سینیٹ میں منظوری کے بعدقومی اسمبلی میں آیا تھا تاہم بل واپس کمیٹی کو بھیجا گیا جو آج پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظور کرلیا گیا ہے۔ نئے قانون میں غیرت کے نام پر عورتوں کے قتل کی روم تھام کیلئے ملزمان کیلئے سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔

(جاری ہے)

مشترکہ اجلاس اسپیکر سردار ایاز صادق کی صدارت میں ہوا۔

بل کی مخالفت وزیراعظم کے داماد کیپٹن (ر) صفدر نے بھی کی اور کہا کہ بل علماء کرام کی مشاورت کے بعد منظور کیا جائے۔ اجلاس میں یہ بل فرحت الله بابر نے پیش کیا جو اکثریتی رائے کی بنیاد پر منظور کرلیا گیا ہے۔ غیرت کے نام قتل کی روک تھام کے بل کا بنیادی مقصد غیرت کے نام پر قتل عام کو روکنا ہے۔خاندان کا رشتہ دار بعد میں قاتل کو معاف کردیتے تھے اور مجرم سزا سے بچ جاتا ہے۔

یہ ملک میں عام روایت ہے۔ سینیٹ میں مذہبی علماء نے ابتداء میں مخالفت کی لیکن بعد میں قائمہ کمیٹی سینیٹ نے پاس کردیا۔ پھر سینیٹ کے 104 ممبران جن کا تعلق چاروں صوبوں سے اور مذہبی جماعتوں سے ہے نے منظور کیا۔ فرحت الله بابر نے وضاحت کرتے ہوئے مذہبی جماعتوں نے بعد میں بل کی مخالفت کی ہے۔ ماضی میں بھی کی گئی قانون سازی میں اس جرم کو مکروہ قرار دیا گیا ہے یہ کسی نظریہ کا مسئلہ نہیں بلکہ انسانی مسئلہ ہے اس مسئلہ کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی گئی لیکن صغریٰ امام نے بہتر انداز میں اپنا نقطہ نظر پیش کیا اور قانون سازی میں اہم کردار ادا کیا گیا ہے۔

غیرت کے نام پر قتل ہوں گے اب بھی بل میں موت کی سزا کو عمر قید کی سزا میں تبدیل کیا گیاہے اور لوگوں کے اعتراض کو ختم کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے اس قانون کے تحت غیرت کے نام پر قتل کی سزا عمر قید رکھی گئی ہے۔ فرحت الله بابر نے قانون کو دوبارہ کمیٹی کو بھیجنے کی بھی خواہش ظاہر کی جو سپیکر نے مسترد کردی ہے۔ شیری رحمن نے کہا کہ یہ بل 2004 ء سے پارلیمنٹ میں چلا آرہا ہے۔

ملک میں غیرت کے نام پر آٹھ ہزار سے زائد خواتین قتل ہوچکی ہیں ۔ معاشرہ خواتین کو پسند کی شادی کرنے کی اجازت دے۔ عدالتیں غیرت کے نام پر قتل کرنے والے مجرموں کو سزائیں دینے سے کتراتے ہیں یہ ہمارا معاشرہ ہے۔ ایسے مقدمات میں صلح کا عنصر ختم کرنا ہوگا۔ شرمین عبید چنائے کی فلم دیکھ کر وزیراعظم کا ضمیر بھی غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کے خلاف جاگ اٹھا’ پاکستان کی خواتین کی زبردستی شادی کرائی جاتی ہے۔

بل واپس کمیٹی کو بھیجا جائے تاکہ اس کی خامیاں دور ہوسکیں۔ شائستہ پرویز نے کہا کہ بل کو منظور کیا جائے اس کی خامیاں بعد میں دور کی جائیں۔ قصاص و دیت حقیقت ہے لیکن اسلام بھی جان بوجھ کر قتل کی اجازت نہیں دیتا ۔ نفیسہ شاہ نے کہا کہ قتل کا جرم حقیقت میں ریاست کیخلاف ہوتا ہے ۔ ملک میں ایسا قانون بنا دیا گیا کہ اشخاص کو قتل کے مجرم کو معاف کرنے کا حق دے دیا جس کے بعد خواتین کے قتل کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

سندھ میں تین فیصد لوگوں کو ایسے سزا ہوئی ہے ۔ معاشرے میں غیرت کے نام پر قتل کرنے والوں کو معافی دی گئی ہے جس کوختم کرنا ہوگا۔ حکومت عارضی ترامیم لارہی ہے اس بل کا از سر نو جائزہ لیا جائے۔ حکومت لوگوں کو سبز باغ دکھا رہی ہے محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ ملک میں خواتین کے حقوق نہیں دیئے جاتے خواتین کو فروخت کیا جارہا ہے جائیداد میں حق بھی دیا جائے خواتین کو طاقتور بنانا ہوگا۔

شازیہ مری نے کہا کہ غیرت کے نام پر قتل کو ریاست کے خلاف جرم قرار دیا جائے۔ بل کے اندر جو خامیاں ہیں ان کو دور کیا جائے اور سزا معاف کرنے کا عنصر بل سے ختم کیا جائے۔ سخت قوانین بنانے سے عورتوں کے قتل ختم کئے جائیں گے۔ ثمن سلطان جعفری نے کہا کہ اسلام کے نام پر سیاست نہ کی جائے تو بہتر ہوگا انہوں نے کہا کہ بل سے خامیاں دور کرکے بل ایوان میں پیش کیا جائے۔

جمشید دستی نے بل کو لانے کی خاص صرورت نہیں ہے یہ اجلاس کشمیر کیلئے بلایا گیا اور بحث بل خواتین پر ہورہی ہے بل کو آئین کی شقوں کے تحت دیکھنا ہوگا۔ یہ بل این جی اوز نے بنایا ہے اس بل کو اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجا جائے ملک کے وزیر داخلہ کو قرآن کی سورتیں بھی یاد نہیں آتیں ایسے لوگوں کو ایوان میں بیٹھنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ بیرسٹر سیف الله نے کہا کہ اس قانون میں قصاص اور دیت کی رعایت دینے کی کوشش کی جارہی ہے فساد کی اراضی اور فتنہ کی اراضی پر اسلامی ملک کا سربراہ تبدیل کر سکتا ہے۔

سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ حکومت نے کشمیر کا سہارا لے کر اس متنازعہ بل کو پاس کروانے کی کوشش کی ہے قرآن ہدایت کی کتاب ہے دین کو سی پی آر کے قوانین سے نہ ملائے۔ پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید نوید قمر نے بل پیش کرنے پر سیدہ صغریٰ امام کی تعریف کی اور کہا کہ انہوں نے قومی خدمت کی ہے قوم ان کی مرہون منت ہے انہوں نے کہا کہ غیرت کے نام پر قتل ملک مین عام روایت بن چکی ہے اس گھناؤنے جرم پرہمارے قانون نے بالکل آنکھیں بند کی ہوئی ہیں جس کے بعد ملک میں ایسے واقاعات شامل ہیں کیونکہ قاتل کو علم ہوتا ہے کہ اسے معافی مل جائے گی ہم کسی صورت میں بھی قانون کو اندھا نہیں بنانا چاہیے واقعات کے رونما ہونے کی اجازت نہیں دیں گے تاریخ اس ایوان کو معاف نہیں کرے گی ۔

انہوں نے کہا کہ قانون میں ایسی ترامیم کردی کہ سزا معافی کرنے کا شق ڈالا گیا تو مجرم نے کیا پایا ہے اور قانون کی اصل روح ختم کردی گئی تاہم سزا سخت ہوئی ہے معاشرے میں اس ناسور کو مزید ہوا دی گئی ہے۔ یہ ہم پر فرض ہے کہ ایسے شخص کو خوف سے خوف سے سخت قانون سازی کے ذریعے روکیں جو غیرت کے نام پر قتل کرنے جارہا ہے۔ پارلیمنٹرین کو سوچنا ہوگا کہ کل ہماری بیٹی کو بھی قتل کیا جاسکتا ہے ہمیں اس بل کو سخت بنانا ہوگا انہوں نے کہاکہ بل کو پاس کردیا گیا تو ہم اس قانونمیں مزید ترامیم لانق کا حق رکھتے ہیں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق الله نے کہا کہ بل کو اسلامی نطریاتی کونسل کو بھیجنا چاہیے قتل غیرت کے نام پر ہو یا بے غیرت کے نام پر قتل قتل ہوتا ہے قتل پر راضی نامہ کا حق الله نے دیا ہے تو ہم کیسے انکار کر سکتے ہیں تاہم غیرت کے نام پر قتل ایک ظلم ہے دیر میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے پیسے وصول کرنے والی خواتین کو قتل کیا گیا انہوں نے رات دوسرے گاؤں میں خاوند کی اجازت کے بغیر گزاری تھی۔

سینیٹر حمد الله نے کہا کہ غیرت کے نام پر بل کے نام پر مذہبی جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بناجارہا ہے قوانین وہ لوگ بنا رہے ہیں جن کو سورة فلق اور سورة الناس آتی ہی نہیں ہیں آئین کے تحت اسلامی قوانین بنانے سے قبل مشاورت اسلامی نظریاتی کونسل سے لینا ضروری ہے پارلیمنٹ گھروں سے بھاگ جانے والی لڑکیوں کو روکنے بارے قوانین بنائے یہ بل اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجنے کا مطالبہ کیا ہے۔

نعیم کشور نے کہا کہ یہ بل اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجا جائے قبائلی علاقوں میں خواتین کے ساتھ لڑکوں کو بھی قتل کیا جاتا ہے عورتوں کے ظلم کے خلاف ہیں قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی نہیں ہونے دیں گے۔ خواتین کوموجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے بتانا چاہیے کیپٹن (ر) صفدر نے کہا کہ مسلم لیگ نواز دو قومی نظریہ کی جماعت ہے پاکستان کو دو قومی نظریہ کی بنیاد پر بنایا گیا ہے اس لئے یہاں بننے والے قوانین 1973 ء کے آئین کے تحت بننے چاہئیں اسلام میں عورتوں کوبہت مقام دیاگیا ہے اس ایوان سے یہ قانون پاس ہونا چاہیے کہ عورتوں کو قتل کرنے پر بھائی یا والد کو جائیداد سے قرق کرنا چاہیے عورت کے مقام کی بات کرے ایک بل آپ لے آئیں ہیں پارٹی کے فیصلوں کا پابند ہوں ایک بہن نے کہا کہ وزیراعظم نے فلم دیکھی اور قانون بنانے کو کہا قانون فلمیں دیکھ کر نہیں بنائے جاتے۔

اس قانون کیلئے چاروں مکتبہ فکر کے علماء کوبٹھا کراس کا جائزہ لیا جائے اس بل کو فوری طور پر منظور نہ کیا جائے وفاقی وزیر زاہد حامد نے کہا کہ خواتین کو عزت کا مقام دلانا مسلم لیگ نواز کے ایجنڈا میں شامل ہے وزیراعظم نے یہ بل قندیل بلوچ کے قتل کے بعد یا ایک فلم دیکھنے کے بعد نہیں کیا یہ کام پہلے سے جاری تھا ایک بل پر تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق رائے قائم کیا ہے اس میں کوئی خلا نہیں رہ گئی ہے 2004 ء کے بل میں خلا رہ گیا تھا اس بل میں 25 سال قید کی سزا رکھی گئی ہے۔

اعتزاز احسن نے غیرت کے نام پر قتل کی روک تھام کے بل پر اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ اسلام میں عورتوں کو تمام حقوق دیئے گئے ہیں ہمارے معاشرے میں عورتوں پر ظلم ہوتا ہے یہ ایک حقیقت ہے جس سے کوئی انکاری نہیں عورتوں پر گھریلوں تشدد ہوتا ہے ملک میں قانون کا استعمال غلط ہورہا ہے قاتل کو عام طو رپر معاف کردیا جاتا ہے اسلامی نطریاتی کونسل کی رپورٹ زیادہ تر خواتین کے بارے میں ہیں دیگر اقوام آسمان تک پہنچ رہی ہیں ہم خاتون تک الجھے ہوئے ہیں جو معاشرے خواتین کو محفوظ نہیں رکھتے وہ ترقی نہیں کر رہے ہیں پاکستان پیپلزپارٹی کوشش کرتی رہی کہ بل اصلی حالت میں پاس ہو اور بل کو منظور کرلیا جائے تو بہتر ہوگا مستقبل میں اس بل میں مزید ترامیم لائی جائیں گی۔

ادھرغیرت کے نام پر قتل اور انسدادعصمت دری کی روک تھام کے لئے بلوں کی منظوری پر مبارکباد دیتے ہوئے وزیراعظم محمد نوازشریف نے کہا کہ غیرت کے نام پر قتل کوئی غیرت نہیں ہے ، یہ ملک کو درپیش ایک اہم مسئلہ تھا ،ملک بھر میں اس قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں گے ۔ جمعرات کو وزیراعظم محمد نوازشریف نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ غیرت کے نام پر قتل کی روک تھام اور انسدادعصمت دری کے بل پارلیمنٹ سے منظور ہونے پر قوم ،پارلیمنٹ، غیر سرکاری تنظیموں ، سول سوسائٹی اور میڈیا کو مبارکباد پیش کرتا ہوں ،اس قانون سازی کی منظوری کے لئے حمایت کرنے والے تمام لوگ بھی مبارکباد کے مستحق ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ غیرت کے نام پر قتل ملک کو درپیش اہم مسئلہ تھا ، معاشرے سے اس دھبے کو ہر صورت دور کرنا حکومت کا عزم تھا ، اس سلسلے میں ہماری کوششیں کامیاب ہوئیں کیونکہ غیرت کے نام پرقتل کرنے میں کوئی غیرت نہیں ہے ۔وزیراعظم نے کہا کہ ملک بھر میں اس قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں گے ، میں خواتین کے تحفظ ، خودمختاری اورآزادی پر یقین رکھتا ہوں کیونکہ خودمختاری اور تحفظ سے ہی خواتین ملکی ترقی وخوشحالی میں مساوی کردار ادا کر سکتی ہیں ، پوری قوم بالخصوص اعتدال پسند اور ترقی پسند لوگ قانون پر کامیابی سے عمل درآمد کے لئے تعاون کریں ، ہمیں اس غیر اسلامی فعل کے مرتکب افراد کو کٹہرے میں لانا ہے ۔

متعلقہ عنوان :