حکومت بنک قرضوں کی تفصیلات تحریری طور پر آگاہ کرنے کو تیار ہے،زاہد حامد

چیئرمین نیب و دیگر تحقیقاتی ادارے بنکوں میں ہونیوالی کرپشن کی تحقیقات کر رہے ہیں،کچھ کمپنیاں نہیں چاہتی کہ ان کے فنانس معاملات زیر بحث لائے جائیں،وزیرقانون نیشنل بنک سے پانچ سال میں کتنے افراد نے قرضہ لیا،اسے وصول کب کرنا ہے،جہانزیب جمالدینی، نیشنل بنک کے قرضے رشوت کے طور پر دیئے جا رہے ہیں،عثمان کاکڑ قرضوں کے نام پر فراڈ ہو رہا ہے،سلیم مانڈوی والا، قرضہ اب ڈاکہ بن چکاہے،حافظ حمداللہ، نک پابند ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو حقائق سے آگاہ کرے،اعتزاز احسن

بدھ 5 اکتوبر 2016 10:17

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔5اکتوبر۔2016ء) وفاقی وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے سینٹ میں کہا ہے کہ حکومت نے تمام بنکوں کی تفصیلات 2009 سے 2015 تک فراہم کردی ہیں ایوان تحریری طور پر کہے تو حکومت بنک قرضوں کی تمام تفصیلات تحریری طور پر آگاہ کرنے کو تیار ہے ۔ چیئرمین نیب و دیگر تحقیقاتی ادارے بنکوں میں ہونیوالی کرپشن کی تحقیقات کر رہے ہیں ۔

کچھ کمپنیاں نہیں چاہتی کہ ان کے فنانس معاملات زیر بحث لائے جائیں ۔ ایوان اگر چاہتا ہے تو ان کیمرہ بنک سے بریفنگ لی جا سکتی ہے حکومت ہیجان کا شکار نہیں تمام تر تفصیلات بتانے کو تیار ہیں ۔سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے سینٹ میں کہا ہے کہ ایوان کو بتایا جائے کہ نیشنل بنک سے گزشتہ پانچ سالوں میں کتنے افراد نے قرضہ لیا اور اسے وصول کب کیا اور کب کرنا ہے ۔

(جاری ہے)

مگر ہمیں بتایا جاتا ہے کہ نیشنل بنک کے قرضہ جات پر بات نہ کی جائے ۔ ایسا کیوں ہے سینٹ نیشنل بنک کو پابند کرے کہ وہ ایوان کو رپورٹ پیش کرے تاکہ اس پر مکمل بات کی جا سکے اور قومی دولت کا حساب لیا جا سکے ۔ سعید مندوخیل نے کہا ہے کہ گزشتہ 50 سالوں سے کتنے افراد نے قرضہ معاف کروائیں ہیں اور وہ پردہ نشین کون سے ہیں ۔ عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ کہاں گیا ہے اب ایوان کی طاقت سے نیشنل بنک کو پابند بنایا جائے کہ وہ لسٹ ایوان میں پیش کرے ۔

سینیٹر نعمان وزیر نے کہا ہے کہ عموماً دیکھا گیا ہے کہ قومی بنک سے قرضہ لے لیا گیا اور بتانے سے بھی گریز کیا ۔ بتایا جائے کہ کس پریشر کے تحت قرضہ حاصل کیا ۔ نیشنل بنک قوم کا اثاثہ ہے اس پر سیر حاصل بحث ہونی چاہئے اور مگر مچھوں کے نام سامنے آنے چاہئیں عثمان کاکڑ نے کہا ہے کہ مارشل لاء ہو یا جمہوریت میں نیشنل بنک کے قرضے رشوت کے طور پر دیئے جا رہے ہیں قرضہ لے کر پھر معاف کروانا بہت بڑا ذریعہ ہے کرپشن کا 343 ارب روپے کیوں معاف ہوئے اور اب وقت ہے لسٹ کے مطابق قرضے واپس کرنے چاہئیں ۔

سینیٹر عبدالقیوم نے کہا کہ سٹیٹ بنک نے ایک لسٹ دی کہ 12 سال میں 1403 ارب روپے معاف کرائے گئے ۔ یہ ایک سازش ہے کہ قرضہ لینے والا اور بنک کی ملی بھگت سے ہوتا ہے ۔ 2012 سے 2014 تک 20 ارب روپے کے قرضے معاف کرائے گئے ۔ دیہاتوں میں 50 ہزار روپے قرضہ لینے والوں کو جیلوں میں بند کر دیا جاتا ہے ۔ سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا ہے کہ قرضوں کے نام پر ایک فراڈ ہو رہا ہے اس کو بے نقاب کرنا چاہئے اب دیکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ فراڈ کس نام اور کس حیثیت سے ہو رہا ہے ۔

سینیٹر تاج حیدر نے کہاہے کہ بنکنگ قوانین میں کہ قرضہ جات کس حیثیت سے دیئے جائیں اگر کسی کو رہن رکھا گیا تو اس کا 40 فیصد قرضہ دیا جاتا ہے بنک سے پوچھا جائے کہ رہن رکھی گئی اشیاء کو فروخت کیا ہے یا نہیں ۔ سینیٹر حافظ حمد اللہ نے کہا ہے کہ بدقسمتی سے ہم رونا روتے ہیں ملکی معیشت بدحالی کا شکار ہے ۔خوشحالی تب آتی ہے جب امن و معیشت مضبوط ہوں ۔

مگر یہاں نہ تو امن ہے اور نہ معیشت مضبوط ہے قرضہ اب ڈاکہ بن چکاہے بنک ڈکیتیوں کی لسٹ فراہم کیوں نہیں کرتا ہے سینیٹر عائشہ رضا فاروق ، بنک رولز کے مطابق اپنے ڈاکومنٹ مکمل ہونے کے ساتھ ایک اکاؤنٹ بھی لیا جاتا ہے کہ اس اکاؤنٹ میں رقم جیسے ہی کم ہوتی ہے تو بنک کو متحرک ہونا چاہئے ۔ اپوزیشن لیڈر چودھری اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کے سوال پر بنک اگر جواب دے تو آئین میں ہے کام کرنا ڈیوٹی ہے علاوہ ازیں صدر پاکستان ہی قرضہ معاف کا آرڈیننس جاری کر سکتا ہے بنک پابند ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو تمام حقائق سے آگاہ کرے ۔