مشرقی سرحدوں کی صورتحال پر پوری نظر رکھے ہوئے ہیں پاک فوج ہر طرح سے تیار ہے، تر جما ن پاک فو ج

اڑی حملے کے بعد بغیر ثبوت کے پاکستان پر الزامات لگانا درست نہیں،وارسک روڈ کرسچن کالونی اور مردان خود کش دھماکوں کے سہولت کار وں کو پکڑا جاچکا ہے، ضرب عضب کے اہم آپریشن بند ہوچکے ، پاک افغان بارڈر پر راجگال کی پہاڑیاں کلیئر ہوچکی ہیں، افغانستان کے ساتھ سرحد کا مکمل کنٹرول فوج کے ہاتھ میں ہے، خیبر پختونخوا اور فاٹا میں یکم جولائی سے اب تک ایک ہزار 470 کومبنگ آپریشن ہوئے، دہشت گردی کے 14 منصوبے ناکام بنائے۔نیشنل ایکشن پلان پرعمل درآمد کیلئے کافی محنت درکارہے، لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ

بدھ 28 ستمبر 2016 10:32

راولپنڈی(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔28ستمبر۔2016ء)آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا ہے کہ اڑی حملے کے بعد بغیر ثبوت کے پاکستان پر الزامات لگانا درست نہیں،مشرقی سرحدوں کی صورتحال پر پوری نظر رکھے ہوئے ہیں اور پاک فوج ہر طرح سے تیار ہے، وارسک روڈ کرسچن کالونی اور مردان خود کش دھماکوں کے سہولت کار وں کو پکڑا جاچکا ہے ،آرمی چیف نے دورہ جرمنی پر افغانستان سے دہشت گردوں کے نیٹ ورکس پر سوال اٹھایا، واپسی کے بعد اسپیشل آپریشنل میٹنگ ہوئی، ضرب عضب کے اہم آپریشن بند ہوچکے ہیں، پاک افغان بارڈر پر راجگال کی پہاڑیاں کلیئر ہوچکی ہیں، افغانستان کے ساتھ سرحد کا مکمل کنٹرول فوج کے ہاتھ میں ہے، خیبر پختونخوا اور فاٹا میں یکم جولائی سے اب تک ایک ہزار 470 کومبنگ آپریشن ہوئے ہیں، دہشت گردی کے 14 منصوبے ناکام بنائے جاچکے ہیں۔

(جاری ہے)

نیشنل ایکشن پلان پرعمل درآمد کیلئے کافی محنت درکارہے۔راولپنڈی میں پریس کانفرنس کے دوران عاصم باجوہ کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی سے متعلق پلان تیار کرلیا گیا ہے۔جنرل باجوہ نے بتایا کہ راجگال کے پہاڑی علاقوں میں سیکیورٹی کلیئرنس ہوچکی ہے، جس سے بارڈر میجمنٹ میں مدد ملے گی۔انھوں نے بتایا کہ پشاور کے وارسک روڈ پر 4 دہشت گرد کرسچن کالونی میں داخل ہوئے جنھوں نے خود کش جیکٹس پہنی ہوئی تھیں، ان کے 4 سہولت کار تھے، جنھیں پکڑا جاچکا ہے جبکہ حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہوئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ مردان کچہری میں ہونے والے حملے کی منصوبہ بندی بھی افغانستان میں ہوئی، جس کے 3 سہولت کاروں کو پکڑا جاچکا ہے، جن سے 3 خودکش جیکٹس بھی ملیں، جنھوں نے نیشنل بینک مردان اور پولیس لائن مردان میں بھی حملے کرنے تھے، لیکن ان کے منصوبے کو ناکام بنا دیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ بارڈر مینجمنٹ اس وقت موثر ہوگی جب افغانستان کی طرف سے بھی کام کیا جائے، ہمیں امید ہے کہ آنے والے دنوں میں افغان سائیڈ پر بھی فورسز تعینات ہوں گی۔

افغانستان کیساتھ راجگال کی سرحد پر 20پوسٹیں تعمیر کی گئی ہے جس کا مکمل کنٹرول پاک فوج کے پاس ہے ، راجگال کے پہاڑی سلسلے دہشت گردی سے مکمل کلیئر ہو چکے ہیں ، راجگال کے پہاڑی سلسلے پر بھی پاک فوج کے جوان تعینات ہیں ۔اب افغانستان سے پاکستان آنے کا کوئی راستہ نہیں ہے ، جب چیک پوسٹیں مکمل ہو جائیں گی تو بارڈر پر نقل و حرکت ختم ہو جائے گی ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ طورخم سے آنیوالا دہشت گرد عام شہری کے روپ میں غیر مسلح آیا تھا۔انہوں نے کہاکہ دہشت گردی کی پلاننگ افغانستان میں ہو رہی ہے اور افغانستان سے سہولت کار دہشت گردوں کو بارڈر تک چھوڑ جاتے ہیں جہاں سے آگے وہ عام شہری کے طورپر پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور ان دہشت گردوں کو پاکستان کے اندر سے ہتھیار، خود کش جیکٹس اور پناہ سہولت کار دے رہے ہیں ان سہولت کاروں میں خواتین بھی ہیں،سہولت کاروں کا نیٹ ورک کنٹرول میں آرہا ہے لیکن سب کو چوکس رہنا ہے ، افغان حکومت ،فوج اور انٹیلی جنس سے معلومات شیئر کی جا رہی ہیں ۔

ایک اور سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ اڑی حملے میں بھارتی الزامات پر ہمیں افسوس ہے، مشرقی سرحد کے حالات پر پوری نظر رکھے ہوئے ہیں ،پاکستان نے ہمیشہ ذمہ داری سے بات کی ہے،ٹھوس شواہد ملنے تک پاکستان نے کبھی کسی پر انگلی نہیں اٹھائی، پاکستان خطے میں امن چاہتا ہے ۔انہوں نے کہاکہ آرمی چیف آج ہی جرمنی سے واپس وطن پہنچے ہیں اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے اسپیشل آپریشنل میٹنگ ہوئی ہے بغیر ثبوت کے پاکستان پر الزام لگانا درست نہیں ہے ، پاکستان ہمسایوں کے ساتھ امن و سکون کے ساتھ رہنا چاہتا ہے،پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان میں امن ہو، ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ نیشنل ایکشن پلان پرعمل درآمد کیلئے کافی محنت درکارہے۔

ایک اور سوال پر انہوں نے بتایا کہ ٹی ڈی پیز کی واپسی کی نومبر کی ڈیڈ لائن ہے ،75 فیصد کام مکمل ہو گیا ۔انہوں نے بتایاکہ 1470 کومبنگ آپریشن خیبر پختونخوا اور فاٹا میں ہوئے ہیں اورکومبنگ آپریشن سے سلامتی کی صورتحال میں بہت بہتری آئی ہے اور دہشت گردی کی شرح میں کمی آئی ہے،۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے دہشتگرد حملے کے سہولت کاروں کو میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا۔