چیف جسٹس کا شیشہ نوشہ کے بڑھتے رحجان پراظہار تشویش

عدالت کے حکم کا یہ اثر ہوا کہ قانون نافذ کرنیوالے ادارے پہلے ایک لاکھ ماہانہ لیتے تھے جو پانچ لاکھ ہو گیاہے کرپٹ عناصر کی چا ندی ہو گئی،جسٹس انور ظہیر جمالی حکومت کوئی کام کرنا چاہے تو 24گھنٹے میں کر لیتی ہے،کیس کو دس سال گزرنے کے باوجود کچھ نہیں کیا گیا،آئندہ سماعت پر سیکرٹریز ہیلتھ اور کامرس طلب

جمعہ 23 ستمبر 2016 11:02

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔23ستمبر۔2016ء) سپریم کورٹ میں شیشہ نوشی کے حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی نے شیشہ نوشہ کے بڑھتے ہوئے رحجان پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے حکم کا یہ اثر ہوا کے قانون نافذ کرنے والے ادارے پہلے ایک لاکھ ماہانہ لیتے تھے جو اب پانچ لاکھ ہو گیاہے جس سے کرپٹ عناصر کی چا ندی ہو گئی ہے،حکومت کوئی کام کرنا چاہے تو چوبیس گھنٹے میں کر لیتی ہے لیکن کیس کو دس سال گزرنے کے باوجود کچھ نہیں کیا گیا،علاقے کے کرتا دھرتا کے ریٹ بڑھ گئے ہیں،عدالت کے احکامات کا یہ حشر کر دیا گیا ہے،عدالت نے آئندہ سماعت پر سیکرٹری ہیلتھ اور کامرس کے سیکرٹری کو طلب کر لیا ہے اور سماعت آئندہ منگل تک ملتوی کر دی ہے۔

تفصیلات کے مطابق جمعرات کے روز سپریم کورٹ میں شیشہ نوشی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ،چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینج نے کیس کی سماعت کی۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس آف سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ شیشہ نوشی فیشن بن گیا ہے اور جب فیملی کو پتہ چلتا ہے تو انکا بچہ نشئی بن چکا ہوتا ہے،حکومت جو کام کرنا چاہتی ہے اس پر فوری عملدرآمد کروا لیا جاتا ہے لیکن دس سال گزرنے کے باوجود بھی شیشہ نوشی سے متعلق واضح حکمت عملی نہیں اپنائی گئی۔

حکومتی وکیل نے عدالت کو بتایا کہ منسٹری آف فنانس کو سمری بھجوانی گئی ہے کہ یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اور وزارت ہیلتھ اور کامرس نے ملک کر حل کرنا ہے۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ فیڈریشن نے ایک ماہ کا وقت لیا تھا کہ اس کو کنٹرول کریں گے لیکن لگتا ہے کہ آپکی خواہش ہے کہ شیشہ کو بند نہ کیا جائے،جس علاقے میں شیشہ نوشی کے سینٹر ہوتے ہیں وہاں کے علاقے کے کرتا دھرتا کے ریٹس بڑھ جاتے ہیں اگر حکومت کا دل نہیں چاہتا تو کیا کام ہو گا اور اس کے لیے اور کتنا کام چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ یہ عوامی مفاد کا مسئلہ ہے ،تمام صوبوں کے اٹارنی جنرل شیشے کی درآمد کے حوالے سے رپورٹس جمع کروائیں،اس حوالے سے ایک ماہ کا ٹائم دیا گیا تھا کہ شیشہ کی امپورٹ بند کر دی جائے گی۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدالتی احکامات پر عملدرآمد کا مسئلہ ہے ،یہ بات درست ہے کہ تمباکو باہر سے منگوانے کی اجاز ت ہے لیکن دس سال سے کیس چل رہا ہے اور آپکو پتہ نہیں چل رہا ہے اس کی امپورٹ کو روکا جائے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت بتا دے کہ شیشے کو نہیں روکنا چاہتے ،اگر نل کو بند نہیں کیا جائے گا تو پانی بند کیسے ہو گا لگتا ہے کہ سیکرٹری فنانس کو شیشہ اچھا لگتا ہے۔درخواست گزارسید ذولفقار علی نے عدالت کو بتایا کہ لاہور میں 80فیصد شیشہ نوشی پر قابو پا لیا گیا ہے جبکہ 20فیصد لوگ چھپ چھپا کر یہ کام کر رہے ہیں۔

متعلقہ عنوان :