’مہاجرین کے لیے کچھ کیا جائے‘ برطانیہ کے مذہبی رہنما بْول پڑے

یہ ملک کھلے دل سے مدد اور نیکی کرنے، اظہار یکجہتی اور احترام کے لیے جانا مانا جاتا ہے، وزیراعظم کے نام خط

منگل 13 ستمبر 2016 08:50

لندن( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔13ستمبر۔2016ء )برطانیہ میں مختلف مذاہب کے سینکڑوں رہنماوٴں نے ملکی وزیر اعظم ٹریزا مے سے اپیل کی ہے کہ سیاسی پناہ کے قوانین میں ترامیم اور انسانی حقوق کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے مہاجرین کی مدد کے لیے اضافی اقدامات کیے جائیں۔برطانوی مذہبی رہنماوٴں نے اپنے خط میں لکھا ہے، ”یہ ملک کھلے دل سے مدد اور نیکی کرنے، اظہار یکجہتی اور احترام کے لیے جانا مانا جاتا ہے۔

برطانیہ نے ماضی میں متعدد مرتبہ اور موجودہ دور سے کہیں زیادہ مشکل صورتحالوں میں ظلم و تشدد کی وجہ سے ترکِ وطن کرنے والے افراد کے ساتھ انہی جذبات کے تحت سلوک روا رکھا ہے۔“ ان رہنماوٴں نے پیر بارہ ستمبر کو ملکی وزیر اعظم کو ایک خط ارسال کیا، جس میں مہاجرین کو خوش آمدید کرنے کے لیے اضافی اقدامات اٹھانے کی اپیل کی گئی ہے۔

(جاری ہے)

گروپ کی سربراہی کے فرائض کینٹربری کے آرچ بشپ جسٹن ویلبی کر رہے ہیں۔

خط میں مزید لکھا گیا ہے، ”ہماری آنکھوں کے سامنے یہ انسانی المیہ جاری ہے۔ مستحق افراد کو پناہ فراہم کرنے کے لیے حکومت کے پاس قابل عمل اور فوری اقدمات دستیاب ہیں۔“ خط کے مسودے میں حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ مہاجرین کو ہجرت کے محفوظ اور قانونی راستے مہیا کیے جائیں۔ اہل خانہ سے بچھڑے مہاجرین کو ملانے کے لیے منصفانہ اور انسان دوست پالیسیاں اپنانے پر بھی زور دیا گیا ہے۔

لندن حکومت نے سن 2020 تک اقوام متحدہ کے زیر انتظام مہاجر کیمپوں سے بیس ہزار شامی تارکین وطن کو پناہ فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہیلندن حکومت نے سن 2020 تک اقوام متحدہ کے زیر انتظام مہاجر کیمپوں سے بیس ہزار شامی تارکین وطن کو پناہ فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہیبرطانیہ میں مختلف مذاہب کے قریب دو سو رہنماوٴں کی جانب سے لکھے جانے والے اس خط میں ایک شامی نڑاد خاتون ڈاکٹر کی کہانی بیان کی گئی ہے، جو اس وقت برطانیہ میں مقیم ہیں تاہم وہ اپنے والدین کو لبنان کے ایک مہاجر کیمپ سے برطانیہ منتقل کرانے میں ناکام ہو چکی ہیں۔

تحریر میں ایک ایسے شامی بچے کا بھی ذکر ہے، جس کے والدین اردن کے ایک کیمپ میں ہیں اور جنہیں اپنے لال سے ملنے کے لیے برطانیہ جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔مذہبی رہنماوٴں نے اپنے خط میں اس بات پر فخر کا اظہار کیا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ایک حالیہ جائزے میں تراسی فیصد برطانوی شہریوں نے اپنے محلوں، حتیٰ کہ اپنے گھروں میں بھی مہاجرین کو خوش آمدید کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔

یہاں یہ امر اہم ہے کہ لندن حکومت نے سن 2020 تک اقوام متحدہ کے زیر انتظام مہاجر کیمپوں سے بیس ہزار شامی تارکین وطن جبکہ فرانس، یونان اور اٹلی میں اس وقت موجود تنہا نابالغ مہاجر بچوں میں سے صرف تین ہزار کو پناہ فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ برطانیہ کی قدامت پسند حکومت اس سلسلے میں کافی تنقید کی زد میں رہی ہے۔

متعلقہ عنوان :