انتقامی پورن شائع کرنے پر 206 افراد کے خلاف کارروائی

مقدمات میں سے زیادہ تر سوشل میڈیا یعنی سماجی روابط کی ویب سائٹوں کے ذریعے کیے جانے والے جرائم شامل، ڈائریکٹر

بدھ 7 ستمبر 2016 09:58

لندن(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔7ستمبر۔2016ء) انتقامی پورن کے واقعات میں عموماً کسی کا سابقہ ساتھی اس کی جنسی نوعیت کی تصاویر کو انٹرنیٹ پر شائع کر دیتا ہے تاکہ اس کے ہدف کو شرمندگی کا سامنا ہوبرطانیہ میں خواتین کے خلاف جرائم سے متعلق کراوٴن پروسیکیوشن سروس کی ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال انگلینڈ اینڈ ویلز میں انتقامی پورن کا نیا قانون بننے کے بعد 200 سے زیادہ افراد کے خلاف کارروائی کی جا چکی ہے۔

عوامی پروسیکیوشنز کی ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ ان مقدمات میں سے زیادہ تر سوشل میڈیا یعنی سماجی روابط کی ویب سائٹوں کے ذریعے کیے جانے والے جرائم شامل ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ان جرائم میں متاثرہ افراد کو کنٹرول کرنے اور دھمکانے کے لیے انٹرنیٹ کے استعمال کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

(جاری ہے)

برطانوی پولیس کے پاس جتنے مقدمے آتے ہیں ان کا 18.6 فیصد حصہ گھریلو تشدد اور جنسی جرائم پر مشتمل ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ مقدمات اور سزاوٴں کے اعداد و شمار بھی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئے ہیں۔خواتین کے خلاف جرائم سے متعلق یہ سالانہ رپورٹ 2007 سے جاری کی جا رہی ہے اور اس میں مردوں اور نوجوان لڑکوں کے خلاف جنسی جرائم کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔انتقامی پورن کے واقعات میں عموماً کسی کا سابقہ ساتھی اس کی جنسی نوعیت کی تصاویر کو انٹرنیٹ پر شائع کر دیتا ہے تاکہ ان کے ہدف کو شرمندگی کا سامنا ہو۔

18.6 فیصد جرائم گھریلو تشدد اور جنسی جرائم پر مشتمل تھے جو گذشتہ چھ سال میں نو فیصد سے بڑھ کر موجودہ سطح تک پہنچ گیا ہے پولیس نے گھریلو تشدد کے سلسلے میں تقریباً 117000 افراد کے مقدمات استغاثہ کے حوالے کیے (جو گذشتہ سال کے مقابلے میں چار فیصد کم ہے)رپورٹ کے مطابق قانون لاگو ہونے کے پہلے سال میں 206 افراد کو جنسی نوعیت کی نجی تصاویر شائع کرنے کے جرم میں قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔

تاہم اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ استغاثہ کو کارروائی کے لیے کتنے مقدمات بھیجے گئے۔پولیس کا کہنا ہے کہ اس کی بڑی وجوہات میں شواہد کی کمی یا متاثرہ افراد کی جانب سے کارروائی کے لیے شواہد یا بیانات واپس لے لینا ہے۔عوامی پروسیکیوشنز کی ڈائریکٹر ایلیسن سینڈرز کا کہنا ہے کہ جنسی جرائم کے مقدمات چلانے کے طریقہ کار میں تبدیلی کی وجہ سے مجرمان کے خلاف کارروائی کرنے میں مدد مل رہی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ انھوں نے ریپ اور دیگر جنسی جرائم سے نمٹنے والے مخصوص یونٹس میں وسائل دوگنے کر دیے اور اس حوالے سے استغاثہ کے اہلکاروں کو خصوصی تربیت دی گئی۔’آج ریپ، جنسی جرائم یا بچوں کے خلاف جنسی جرائم کی صورت میں کارروائی اور سزا ہونے کا امکان پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ تاہم ابھی بھی متاثرہ افراد کے ساتھ جیسا سلوک ہونا چاہیے۔ اس کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔‘

متعلقہ عنوان :