بغداد پھر لہو لہو، پندرہ افراد ہلاک، پچاس سے زائد زخمی

حملوں نے بغداد میں ایک بار پھر سلامتی کے اْن ناقص انتظامات کا پول کھول دیا

ہفتہ 3 ستمبر 2016 10:18

بغداد( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔3ستمبر۔2016ء ) عراقی دارالحکومت بغداد کے مختلف حصوں میں ہونے والے متعدد حملوں میں پندرہ افراد ہلاک اور پچاس سے زائد زخمی ہو گئے۔ان حملوں نے بغداد میں ایک بار پھر سلامتی کے اْن ناقص انتظامات کا پول کھول دیا ہے، جن کے باعث حال ہی میں اس شہر میں بڑے پیمانے پر دہشت پسندانہ کارروائیاں ہو چکی ہیں۔ ان میں جولائی میں تقریباً تین سو افراد کی ہلاکت کا باعث بننے والا وہ ہولناک حملہ بھی شامل ہے، جس کا نشانہ ایک شاپنگ سنٹر بنا تھا۔

خود کش جیکٹوں، بندوقوں اور دستی بموں سے لیس حملہ آوروں نے عراقی شہر عین التامر میں ایک کارروائی کرتے ہوئے کم از کم اٹھارہ افراد کو ہلاک کر دیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ حملے کا ہدف شادی کی ایک تقریب تھی۔ غییر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق پولیس حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ کم از کم تین راکٹ مشرقی بغداد میں جا کر گرے، جس کے باعث پانچ افراد ہلاک اور پندرہ زخمی ہو گئے۔

(جاری ہے)

ایسوسی ایٹڈ پریس کے موقع پر موجود ایک رپورٹر کے مطابق علی الصبح کیے جانے والے اس حملے کا نشانہ اسلحے کا ایک ڈپو بنا۔ مقامی آبادی کے مطابق یہ ہتھیار ایک طاقتور شیعہ ملیشیا عصائب اہل الحق کی ملکیت تھے اور جب یہ حملہ ہوا تو اس ملیشیا کے ارکان بھی وہاں موجود تھے۔بغداد کے غزالیہ نامی علاقے میں سنی آبادی کی اکثریت ہے۔ پولیس کے مطابق وہاں ایک بازار میں ایک بم پھٹنے سے دو افراد ہلاک اور آٹھ زخمی ہو گئے۔

وزارتِ داخلہ کے حکام نے بتایا ہے کہ دو بم شہر کی پھلوں اور سبزیوں کی منڈیوں میں پھٹے۔ ان حملوں میں پانچ افراد ہلاک اور بیس زخمی ہو گئے۔ ایک بم مغربی بغداد کے ایک کاروباری علاقے میں پھٹا، جس کے نتیجے میں تین افراد ہلاک اور آٹھ زخمی ہو گئے۔ یہ تمام معلومات ان اہلکاروں نے اپنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر فراہم کیں کیونکہ اْنہیں پریس کے ساتھ بات چیت کی اجازت نہیں تھی۔

جمعے کا دن شیعوں کے نویں امام کی شہادت کا بھی دن تھا اور خادمیہ روضے پر زائرین کی بھی ایک بڑی تعداد موجود تھی تاہم ان حملوں کے نتیجے میں کسی بھی زائر کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ تاحال کسی بھی گروپ نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم ماضی میں شدت پسند ملیشیا داعش اکثر عراقی دارالحکومت کے شیعہ مراکز پر حملوں کی ذمہ داری قبول کرتی رہی ہے۔

ان حملوں میں جولائی میں شاپنگ سینٹر پر ہونے والا حملہ بھی شامل تھا۔جولائی میں تقریباً تین سو افراد کی ہلاکت کا باعث بننے والے ہولناک حملے کا نشانہ بغداد کا یہ شاپنگ سنٹر بنا تھاعراقی فوج داعش کو رمادی اور فلوجہ جیسے بڑے شہروں سے نکال چکی ہے اور اس سال کے آخر تک شدت پسند ملیشیا کے آخری گڑھ موصل کو بھی اپنے کنٹرول میں لانے کا عزم ظاہر کر چکی ہے۔ آج کل عراقی سکیورٹی فورسز کسی بڑے حملے سے پہلے موصل کے آس پاس مختلف طرح کے آپریشن کرنے میں مصروف ہیں، جن کا مقصد اْن راستوں پر کنٹرول حاصل کرنا ہے، جسے داعش کے جنگجو شہر میں جانے یا وہاں سے باہر نکلنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

متعلقہ عنوان :