اپوزیشن صرف وزیراعظم کی فیملی کیخلاف تحقیقات چاہتی ہے ، اسحاق ڈار

حکومت صرف پاناما نہیں قرض معافی سمیت تمام معاملات کی تحقیقات چاہتی ہے ،اپوزیشن بھاگ رہی ہے کمیشن آف انکوائری ایکٹ 2016مکمل با اختیار بل ہے جو کئی دہائیوں کیلئے استعمال ہو سکے گا کسی قسم کا استثنیٰ نہیں چاہتے ،جن لوگوں نے بینکوں سے قرضہ معاف کرایا ہے ان کے خلاف بھی بلا امتیاز کارروائی ہونی چاہیئے ہمارے قانون کو سینٹ میں رد کیا گیا تو آئین کے تحت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے یہ بل پاس کروائیں گے ، وزیر خزانہ کی دیگر وفاقی وزراء کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس

ہفتہ 3 ستمبر 2016 10:27

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔3ستمبر۔2016ء)وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ اپوزیشن صرف وزراعظم نواز شریف کی فیملی کے خلاف تحقیقات چاہتی ہے حالانکہ پاناما لیکس میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت کا نام نہیں ہے، قیادت کے بچوں کے نام ہیں وہ آکر اپنی وضاحت کریں گے جس کے بعد آئین اور قانون کے تحت فیصلہ ہو جائے گاحکومت صرف پاناما نہیں قرض معافی سمیت تمام معاملات کی تحقیقات چاہتی ہے جس سے اپوزیشن بھاگ رہی ہے اس حوالے سے ہر چیز تیار پڑی ہوئی ہے حکومت کی جانب سے قومی اسبملی میں پیش کردہ کمیشن آف انکوائری ایکٹ 2016مکمل با اختیار بل ہے جو صرف پاناما لیکس کے لئے نہیں بلکہ آئندہ کئی دہائیوں کیلئے استعمال ہو سکے گااپوزیشن کی جانب سے سینٹ میں پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لیے جمع کروائے گئے بل کو دیکھنے کے بعد اس پر کوئی رائے دے سکے گے اچھا ہوتا کہ اپوزیشن بل جمع کروانے سے پہلے ایک میٹنگ کر لیتی تو کوئی اچھا نتیجہ نکل سکتا تھا اگر ہمارا قانون کو سینٹ میں رد کیا گیا تو آئین کے تحت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے یہ بل پاس کروائیں گے۔

(جاری ہے)

جمعہ کے روز اسلام آباد میں وفاقی وزراء کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ پاناما لیکس میں مسلم لیگ (ن) کی لیڈر شپ کا نام نہیں اور نہ ہی ہم اس معاملے میں کوئی استثنیٰ چاہتے ہیں، ہماری لیڈر شپ کے جن بچوں کا نام ہے وہ آکر اپنی وضاحت کریں گے جس کے بعد آئین اور قانون کے تحت فیصلہ ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سقوط ڈھاکا سے لے کر ایبٹ آباد واقعہ تک تمام کمیشن انکوائری آف کمیشن ایکٹ 1956 قانون کے تحت بنے لیکن ہم نے کرپشن کی تحقیقات کے لئے نیا قانون قومی اسمبلی میں جمع کرادیا ہے جو صرف پاناما لیکس کے لئے نہیں بلکہ آئندہ کئی دہائیوں کیلئے ہوگا۔

اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ پاناما لیکس کے معاملے پر کسی قسم کا استثنیٰ نہیں چاہتے لیکن جن لوگوں نے بینکوں سے قرضہ معاف کرایا ہے ان کے خلاف بھی بلا امتیاز کارروائی ہونی چاہیئے لیکن اپوزیشن صرف وزراعظم نواز شریف کی فیملی کے خلاف تحقیقات چاہتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اپوزیشن کے مطالبے پر ٹی او آرز کمیٹی کا کوئی چیرمین نہیں بن سکا جب کہ سانحہ کوئٹہ کی وجہ سے ٹی او آرز کے معاملے پر اپوزیشن کے ساتھ بات آگے نہیں بڑھ سکی، اپوزیشن نے پاناما لیکس کمیشن کے لئے اپنے ٹی او آرز پیش کئے، اگر اپوزیشن سینیٹ میں اپنے ٹی او آرز پیش نہ کرتی تو شاید آج ہم بھی یہ قانون پیش نہ کرتے اور ٹی او آرز کے معاملے پر ایک اور میٹنگ کر کے معاملات طے کر لیتے۔

وفاقی وزیر قانون زاہد حامدنے کہاکہ وزیراعظم کے قوم سے خطاب کے چند روز بعد ہی ہم نے پاناما لیکس کے معاملے پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس پر سپریم کورٹ نے اپنے جواب میں کہا تھا کہ 1956 کے ایکٹ کے تحت بننے والا کمیشن بے کار ہو گا جس پر ہم نے اس قانون میں مزید ترامیم کر کے قومی اسمبلی میں پاکستان کمیشن آف انکوائری بل پیش کر دیا ہے جو اپوزیشن کے سینیٹ میں پیش کردہ بل سے بہت بہتر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومتی بل میں اپوزیشن کے مطالبے کے مطابق تبدیلی کی، ہم نے قومی اسمبلی میں پیش کردہ بل میں اپوزیشن کی مرضی کی ترامیم بھی شامل کی ہیں، 2016 کے بل میں 1956 کے ایکٹ کے اختیارات شامل کئے گئے ہیں۔ہم نے کوشش کی جتنے اختیارات کمیشن کو دے سکیں 2016ء کے بل کے تحت کمیشن وفاقی حکومت کے کسی بھی ادارے سے انکوائری کیلئے مدد طلب کرسکے گی جبکہ کمیشن ایگزیکٹو اتھارٹی پر مشتمل ایک ٹیم بنا سکتا ہے اور عالمی اداروں سے بھی مددطلب کرسکتا ہے اگر مستقبل میں کچھ ایسے حالات ہوجاتے ہیں تو اس بل کے تحت کمیشن کو مزید اختیار دے سکتے ہیں جبکہ کمیشن میں انکوائری کے دوران کوئی بھی انفرادی شخص معلومات دے سکے گا اور کمیشن کی رپورٹ پبلک کی جائے گی۔

ہم نے نیا کمیشن آف انکوائری بل مرتب کیا ہے ملک لوٹنے والوں کا احتساب بھی اسی کمیشن کے تحت ممکن ہوگاوفاقی وزیر پورٹ اینڈ شپینگ حاصل بزنجو نے کہا کہ ہم نے کوشش کی اپوزیشن کیساتھ ملکر قانون لائیں جس میں تمام کیسزکواکٹھا کرسکیں اپوزیشن کی باتیں سنیں تو انہوں نیوزیراعظم کو قصوروار قرار دے دیا