فاٹا اصلاحات کمیٹی نے فاٹا میں اصلاحات کیلئے چار بنیادی تجاویز کی سفارش کر دی، فاٹا کے خیبرپختونخوا کے ساتھ الحاق پر وسیع اتفاق پایا گیا

بدھ 24 اگست 2016 10:38

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔24اگست۔2016ء) فاٹا اصلاحات کمیٹی نے فاٹا میں اصلاحات کیلئے چار بنیادی تجاویز کی سفارش کی ہے تاہم خیبرپختونخوا کے ساتھ فاٹا کے الحاق پر واضح اتفاق پایا گیا۔ وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے فاٹا اصلاحات پر 8 ماہ تک غور کیا، جس کے بعد چار بنیادی تجاویز کی سفارش کی گئی۔

وزیر اعظم ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق ایک بنیادی تجویز یہ تھی کہ فاٹا کی موجودہ صورتحال برقرار رہنی چاہیے ،تاہم ترقیاتی سرگرمیوں پر توجہ بڑھانے کیلئے عدالتی اور انتظامی اصلاحات متعارف کرائی جانی چاہئیں۔ دوسری تجویز کے مطابق فاٹا میں گلگت بلتستان کی طرز پر فاٹا کونسل قائم ہونی چاہیے۔تیسری تجویز یہ تھی کہ فاٹا کو ایک علیحدہ صوبہ بنایا جائے جبکہ چوتھی تجویز یہ تھی کہ فاٹا کا خیبرپختونخوا صوبے کے ساتھ الحاق کر دینا چاہیے، جس میں ہر ایجنسی ایک علیحدہ ضلع ہو، کمیٹی کے مطابق فاٹا کے خیبرپختونخوا کے ساتھ الحاق پر وسیع اتفاق پایا گیا، تاہم کرم، باجوڑ اور پشاور کے سوا تمام قبائلی عمائدین چاہتے تھے کہ فاٹا کی موجودہ صورتحال برقرار رہنی چاہیے،یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ تمام سیاسی جماعتیں، نوجوان، کاروباری برادری اور تعلیم یافتہ طبقہ واضح طور پر اس حق میں ہے کہ فاٹا کا الحاق خیبرپختونخوا سے کر دیا جائے۔

(جاری ہے)

قبائلی لوگ یہ بھی چاہتے ہیں کہ نئے نظام میں انکی اپنی روایات اور جرگہ سسٹم کی شناخت کو بھی برقرار رہنا چاہیے۔ قبائلی عوام کی یہ بھی رائے تھی کہ فاٹا اصلاحات کو مرحلہ وار بنایا جائے تاکہ فاٹا کے گھر چھوڑ کر جانے والے لوگوں کی واپسی آسانی سے ہو سکے اور اس کے بعد وہ ایک پرامن زندگی گزار سکیں۔ فاٹا کیلئے علیحدہ صوبہ کی تجویز کو زیادہ حمایت حاصل نہیں تھی کیونکہ اس کے دوسری ایجنسیز کے ساتھ کمزور روابط ہیں اور اس کے مالی وسائل بھی محدود ہیں۔

اسی طرح گلگت بلتستان کی طرز پر فاٹاکونسل بنانے کی تجویز کو بھی زیادہ پذیرائی نہ مل سکی۔ چوتھی تجویز کہ فاٹا کا خیبرپختونخوا کے ساتھ الحاق کر دیا جائے، پر وسیع اتفاق رائے پایا گیا۔ اکثریت کا موقف تھا کہ اس تجویز پر عملدرآمد کے نتیجہ میں فاٹا کو قومی دھارے میں شامل ہونے کا موقع ملے گا اور فاٹا کے عوام خیرپختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں نمائندے بھیجنے کے قابل ہو سکیں گے۔

فاٹا کی تعمیر نو اور بحالی پروگرام کے لئے سفارش کی گئی کہ فاٹا کے بے گھر ہونے والے افراد کی واپسی کی تاریخ 2016ء کے آخر تک ہونی چاہیے اور ان کی بحالی کا عمل 2018ء سے پہلے مکمل ہونا چاہیے۔ اس مقصد کیلئے غیرملکی ڈونرز کو دعوت دی جا سکتی ہے تاکہ مالی وسائل اکٹھے کرنے کے بعد تعمیر نو کے منصوبے پر عمل کیا جا سکے۔ یہ بھی سفارش کی گئی کہ 10 سالہ ترقیاتی پروگرام میں بڑے انفراسٹرکچر، معدنی ترقیاتی پروگرام اور زراعت کے منصوبے بھی شامل ہونے چاہئیں۔

یہ بھی کہا گیا کہ فاٹا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو دوبارہ منظم کیا جا سکتا ہے تاکہ دس سالہ ڈویلپمنٹ پلان پر عمل کیا جا سکے۔ مزید یہ کہ دس سالہ پلان میں کم از کم 30 فیصد مقامی تنظیموں کو شامل کیا جانا چاہیے۔ فاٹا کی تمام آسامیاں خیبرپختونخوا کے مطابق اپ گریڈ ہونی چاہئیں اور منصوبوں کے ملازمین کی تنخواہ خیبرپختونخوا کے پراجیکٹ پالیسی سے 20 فیصد زیادہ ہونی چاہئیں۔

سرمایہ کاروں کو تعلیم اور صحت کے سیکٹر میں خصوصی مراعات دی جانی چاہئیں، اس مد میں انہیں مفت زمین کی فراہمی بھی ہو سکتی ہے۔ فاٹا میں پرائیویٹ بینکوں کی مزید شاخوں کے قیام کیلئے سٹیٹ بنک آف پاکستان کو خصوصی مراعات کا اعلان کرنا چاہیے۔ الحاق کے بعد فاٹا کے طالبعلموں کیلئے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ڈبل کوٹہ مختص کیا جانا چاہیے جو دس سال تک قابل عمل رہے، جب فاٹا میں تعمیر نو کا عمل مکمل ہو جائے تو یہاں پر 2017ء کے آخر میں بلدیاتی انتخابات کروائے جائیں، اس کیلئے فاٹا لوکل گورنمنٹ ریگولیشن کا متعارف کرانا ضروری ہوگا جو تین ماہ کے اندر بن جانا چاہیے۔

اس حوالے سے الیکشن کمیشن آف پشاور میں فاٹا کیلئے علیحدہ یونٹ بھی قائم کیا جا سکتا ہے۔بیان کے مطابق فاٹا ریفارمز کمیٹی کے ارکان نے تمام قبائلی ایجنسیز کے دورے کئے اور وہاں کے منتخب نمائندوں سے ملاقاتیں کیں جن میں تاجر برادری، ملک، تعلیم یافتہ نوجوان، مذہبی رہنما اور سول سوسائٹی کے ارکان شامل ہیں۔ کمیٹی نے اپنی سفارشات کو حتمی شکل دینے کیلئے فاٹا کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے بھی ملاقاتیں کیں۔ کمیٹی نے سرحدی علاقہ جات کے عمائدین سے بھی ملاقاتیں کیں۔ کمیٹی کی یہ سفارشات بدھ کو ہونے والی نیشنل ایکشن پلان کے اجلاس میں پیش کی جائیں گی۔

متعلقہ عنوان :