ملتان،قندیل بلوچ قتل کیس میں مفتی عبدالقوی کو نامعلوم دباوٴ پر بری الذمہ قرار دینے کی سر توڑ کوششیں

ملتان پولیس کیس کو نیا نیا رخ دینے لگی

منگل 23 اگست 2016 10:21

ملتان(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔23اگست۔2016ء)ملک کی معروف ماڈل اور سوشل میڈیا سٹا رقندیل بلوچ کے قتل کیس میں ابتدائی محرک مفتی عبدالقوی کو نامعلوم دباوٴ یا وجوہات کی بنا پر بری الذمہ قرار دینے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف ملتان پولیس اس کیس کو نیا نیا رخ دینے لگی۔ملتان پولیس کے ایک اعلی ترین سینئر پولیس افسر”خبر رساں ادارے“ ملتان کو اپنے ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ مفتی عبد القوی قندیل قتل کیس کے ابتدائی محرک ہے جس کو کسی صورت بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔

انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ مفتی عبدالقوی کے موبائل فونز سے ملنے والے شواہد کے مطابق مفتی عبدالقوی نے قندیل بلوچ کے سعودی عرب میں مقیم بھائی اکرم سے متعدد بار رابطوں کی تصدیق ہو چکی ہے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے بتایا کہ مفتی عبدالقو ی کے موبائل فونز سے ملتان پولیس کوجو معلومات حاصل ہوئیں ہیں ان کے مطابق مفتی عبدالقو ی ہی قندیل قتل کیس کے محرک ہیں اور ان کے موبائل فون سے مزید ملنے والی معلومات سے یہ بات سامنے آگئی ہے کہ قندیل قتل کیس سے قبل مفتی عبدالقو ی نے سعودی عرب کالز کر کے قندیل بلوچ کے سعودی عرب میں مقیم بھائی کو مہرہ بنا کر استعمال کیا جس کے نتیجہ میں قندیل کے قتل کا منصوبہ بنا او ر پھر سعودی عرب میں مقیم قندیل کے بھائی نے پاکستان میں مقیم اپنے بھائیوں اور دیگر افراد کے ذریعے مفتی عبدالقو ی کی خواہش اور پیشکش پر قندیل بلوچ کو قتل کیا ۔

اب قندیل بلوچ قتل کیس کو ملتان پولیس نیا رخ دے رہی ہے جس کے تحت قندیل بلوچ کے سعودی عرب میں مقیم بھائی اکرم کی پاکستان آمد کا انکشاف کر رہی ہے۔ملتان پولیس کے قندیل قتل کیس کے تفتیشی حکام کے مطابق قندیل بلوچ کے قتل کے بعد سے اس کا بھائی اکرم پراسرار طور پر غائب ہے جس کے موبائل فون بند ہیں اور اسکا اپنے گھر والوں سے بھی کوئی رابطہ نہ ہے ۔

اکرم کی سعودی عرب روانگی کی تصدیق بھی نہ ہو سکی ۔ جس کیلئے ملتان پولیس نے ایف آئی اے امیگریشن سیل سے رابطہ کر لیا ہے۔سی پی او ملتان اظہر اکرم کا چند روز قبل کیا جانے والا یہ دعوی بھی تاحال تکمیل کو نہ پہنچا ہے جس میں انہوں نے قندیل بلوچ کیس میں نامزد ملزم حوالدار اسلم کو دو دن میں گرفتار کرنے کا کہا تھا۔ لیگل ذرائع کے مطابق عسکری حکام نے حوالدار اسلم کو ملتان پولیس کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

ملتان پولیس کے اعلی حکام نے قندیل بلوچ کے قتل کے مقدمہ کا مدعی ایس ایچ او تھانہ مظفر آباد سعید گجر کے بجائے مقتولہ قندیل بلوچ کے والد محمد عظیم کو بنا کر قندیل قتل کیس کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ مقدمہ میں جو دفعات لگائی گئی ہیں ان کی موجودگی میں قندیل بلوچ کے قتل میں ملوث ملزمان کو سزا ملنا مشکل ہے (لیگل ذرائع) جبکہ قندیل بلوچ کے قتل میں نامزد ملزم پاک فوج میں ملازم اس کے بھائی اسلم کو پاک فوج کے متعلقہ حکام کی جانب سے ملتان پولیس کی تحویل میں دینے سے انکار کردیا ہے ۔

ملک کی معروف ماڈل اور سوشل میڈیا سٹار قندیل بلوچ کے قتل کے مقدمہ کا مدعی ملتان پولیس کے اعلی افسران کی جانب سے مقتولہ قندیل کے والد محمد عظیم کے بجائے ایس ایچ او تھانہ مظفر آباد سعید گجر کو بحثیت سٹیٹ مقدمہ کا مدعی بنا کر مقدمہ درج کرنا چاہیے تھا اور مقتولہ کے مدعی والد محمد عظیم سمیت وارثاں کو بھی ملزمان بنانا چاہیے تھا مگر ملتان پولیس کے اعلی حکام نے اپنے اعلی پولیس افسران اور پولیس کے لیگل ڈپارٹمنٹ کے افسران کی لیگل رائے سے اتفاق نہ کرتے ہوئے مقتولہ قندیل بلوچ کے مقدمہ میں قانونی سقم چھوڑ دیا ہے۔

ذرائع کے مطابق مقتولہ قندیل بلوچ کے قتل کے مقدمہ کی FIR میں دفعہ 311 کے ساتھ دفعہ 305 ت، پ کا بھی اندراج کرنا چاہیے تھا ۔ مگر ملتان پولیس کے اعلی حکام نے عجلت اور ہڈ حرمی دکھا کر مقتولہ قندیل بلوچ کے کیس کا بیڑہ غرق کر دیا ہے او ر اب ملتان پولیس کے اعلی حکام اور تفتیشی افسران ہوا میں تیر چلا کر ٹامک ٹویاں مار رہے ہیں جن کے پاس مقتولہ قندیل بلوچ کیس کے مقدمہ کے ”صفحہ مثل “پرمقتولہ قندیل بلوچ کے قتل کی واردات میں ملوث ملزمان کے خلاف نہ کوئی عینی شاہد ہے اور نہ ہی کوئی ٹھوس شواہد ملتان پولیس مقتولہ قندیل بلوچ کے قتل کے مقدمہ کی مثل پر اب تک لا سکی ہے ۔

لیگل ذرائع کے مطابق اس موقع پر ملتان پولیس کے لیگل ذرائع نے یہ رائے دی تھی کہ قندیل بلوچ قتل کیس کے مقدمہ میں دفعہ 311 کے ساتھ دفعہ 305 ت، پ کا بھی اندراج کیا جائے کیونکہ دفعہ 305 ت ،پ لگائے جانے کی صورت میں مقدمہ کامدعی سٹیٹ کا افسر یعنی ایس ایچ او تھانہ مظفر آباد ملتان انسپکٹر سعید گجر ہو گا اور ایسی صورت میں مقدمہ کا مدعی ملزمان کو قصاص یا دیت یا معافی دے کر معاف نہ کر سکے گا اس موقع پر ڈسٹرکٹ اٹارنی نے کہا کہ وہ مقتولہ قندیل بلوچ کے قتل میں ملوث ملزمان کو سزا کرا کر دکھائیں گے جو کہ اب ممکن نظر نہیںآ تا اور مقدمہ کا مدعی متعلقہ عدالت میں کیس کی سماعت کے دوران کسی بھی موقع پر معاف کر سکتا ہے ۔

مگر اب جبکہ ملتان پولیس کے اعلی اور متعلقہ حکام نے مقتولہ قندیل بلوچ قتل کیس میں قانونی سقم چھوڑ کر کیس کا بیڑہ غرق کر دیا ہے اور مقتولہ قندیل بلوچ کے قتل کیس میں فرانزک رپورٹس اور دیگر ذرائع پر وقت اور پیسہ ذرائع کر رہے ہیں اور خالی تالاب سے مچھلیاں پکڑنے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہیں۔ذرائع کے مطابق ملتان پولیس کے اعلی حکام نے انٹرنیشنل فیم کے قندیل بلوچ کے مقدمہ قتل میں ملوث اس کے بھائی وسیم کی فوری گرفتاری دکھا کرخود کو بچانے کے لیے وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف اور آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا کی آنکھوں میں دھول جھونک دی ہے۔

ذرائع کے مطابق اب دیکھنا یہ ہے کہ مقتولہ قندیل بلوچ کے قتل کیس میں آگے آگے ہوتا ہے کیا؟؟قندیل بلوچ کے ساتھ سیلفیاں بنانے والے نامزد ملزم رویت ہلال کمیٹی کے سابق رکن مفتی عبد القوی کا مستقبل کیا ہو گا؟؟۔قندیل بلوچ قتل کیس میں ملتان پولیس کے تفتیشی حکام کی جانب سے آئے روز نیا رخ دینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ قندیل بلوچ قتل کیس ملتان پولیس کے بس کی بات نہیں