تمام خواتین کے ختنے کروائے جائیں، روسی مسلمان مفتی

”تمام خواتین کے ختنے ہونے چاہییں تاکہ اس زمین سے اخلاقی زوال کا خاتمہ ہو سکے روسی آرتھوڈوکس چرچ کے اعلیٰ پادری نے بھی ایسا کیے جانے کی حمایت کردی خواتین کے ختنے کرنے سے بچے کی پیدائش میں پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں، عالمی ادارہ صحت اسلام میں خواتین کے ختنے کرنے کے حوالے سے کوئی بھی مذہبی روایات یا قانون موجود نہیں، دنیا بھر کی اسلامی تنظیمو ں کی مذمت

ہفتہ 20 اگست 2016 10:55

ماسکو( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔20اگست۔2016ء )روسی علاقے شمالی قفقاز کے نامور مفتی اسماعیل بیردیف نے کہا ہے کہ ’تمام خواتین کے ختنے‘ کروائے جائیں تاکہ ’جنسیت اور زنا‘ کا خاتمہ کیا جا سکے۔ روسی آرتھوڈوکس چرچ کے اعلیٰ پادری نے بھی ایسا کیے جانے کی حمایت کی ہے۔روسی خبر رساں اداریکے مطابق اسماعیل بیردیف شمالی قفقاز کے نامور مفتی ہیں اور ان کا کہنا ہے، ”تمام خواتین کے ختنے ہونے چاہییں تاکہ اس زمین سے اخلاقی زوال کا خاتمہ ہو سکے۔

“ اس مفتی کا مزید کہنا تھا، ”خواتین کی جنسیت کو کم کرنے کی انتہائی ضرورت ہے اور یہ بھی بہت اچھا ہو گا، اگر تمام خواتین کے ختنے کر دیے جائیں۔ خالق نے خواتین کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ بچے پیدا اور ان کی پرورش کر سکیں اور ختنوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ خواتین میں بچے پیدا کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے یا وہ ایسا نہیں کر سکتیں۔

(جاری ہے)

“دوسری جانب عالمی ادارہہصحت کا کہنا ہے کہ خواتین کے ختنے کرنے سے بچے کی پیدائش میں پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں اور پیدا ہونے والے بچے کی ہلاکت کا بھی ڈر رہتا ہے۔ اقوام متحدہ نے خواتین کے ختنے کرنے کے عمل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے دنیا سے اس عمل کے خاتمے کی اپیل کی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے تخمینوں کے مطابق دنیا بھر میں دو سو ملین سے زائد لڑکیوں اور عورتوں کے ختنے کیے گئے ہیں۔

خواتین کے ختنے بچیوں کی پیدائش کے بعد سے لے کر پندرہ برس کی عمر تک کیے جاتے ہیں اور اس عمل میں خواتین کے بیرونی اعضائے تولید (جینی ٹلز) مکمل یا پھر جزوی طور پر ہٹا دیے جاتے ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے تخمینوں کے مطابق دنیا بھر میں دو سو ملین سے زائد لڑکیوں اور عورتوں کے ختنے کیے گئے ہیں مفتی اسماعیل کا یہ بیان غیر سرکاری تنظیم روسی جسٹس انیشی ایٹو (آر جے آئی) کی اس رپورٹ کے جواب میں سامنے آیا ہے، جس کے مطابق داغستان کے بعض پہاڑی علاقوں میں خواتین کے ختنے کرنا معمول کی بات ہے۔

داغستان شمالی قفقاز کا وہ علاقہ ہے، جو جارجیا اور آذربائیجان کے قریب واقع ہے۔تاہم اسلام میں خواتین کے ختنے کرنے کے حوالے سے کوئی بھی مذہبی روایات یا قانون موجود نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کی بڑی اسلامی تنظیمیں اس عمل کی مذمت کرتی ہیں۔ روس میں مسلمانوں کی روحانی کونسل کے سینیئر مفتی رْسلان عباسوف کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ یہ قبل از اسلام کی روایت ہے اور اس کا مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

تاہم آر جے آئی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ داغستان کے دور دراز کے پہاڑی علاقوں میں خواتین کے ختنے کروائے جانے کو مکمل معاشرتی حمایت حاصل ہے اور وہاں بچیوں کے تین برس کی عمر سے پہلے ہی ختنے کر دیے جاتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ایسا وہ خواتین یا مرد کر رہے ہوتے ہیں، جن کے پاس نہ تو کوئی میڈیکل ٹریننگ ہے اور نہ ہی کوئی مناسب طبی سامان۔ وہ گھروں میں استعمال ہونے والی عام قینچی یا پھر چاقو کے ساتھ ساتھ عام تیل استعمال کرتے ہیں۔

متعلقہ عنوان :