اردوآن کے حماس سے قریبی رابطے، خفیہ جرمن دستاویز میں انکشاف

دستاویز میں جرمنی میں ایردوآن کے حامیوں کی لابی سرگرمیوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے

جمعرات 18 اگست 2016 11:04

برلن( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔18اگست۔2016ء )جرمن حکومت کی ایک خفیہ دستاویز میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ترک صدر ایردوآن کے فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے ساتھ قریبی رابطے ہیں۔ اسی دستاویز میں جرمنی میں ایردوآن کے حامیوں کی لابی سرگرمیوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں لکھا ہے کہ بنیادی طور پر یہ کوئی بہت غیر معمولی دستاویز نہیں ہے۔

اس میں جرمنی میں بائیں بازو کی جماعت ’دی لِنکے‘ کے ارکان پارلیمان کے ایک گروپ نے وفاقی حکومت سے 19 سوالات پوچھے ہیں۔یہ سوالات ترک حکومت کی جرمن سیاست پر اثر انداز ہونے کی کوششوں اور انقرہ حکومت کے مختلف اسلام پسند گروپوں، خاص کر فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس اور مصر کی اخوان المسلمون کے ساتھ رابطوں کے بارے میں بھی پوچھے گئے ہیں۔

(جاری ہے)

جرمنی میں ارکان پارلیمان کی طرف سے وفاقی پارلیمنٹ میں ملکی حکومت سے ایسے سوالات اکثر پوچھے جاتے ہیں اور ’دی لِنکے‘ نامی جرمن سیاسی جماعت ماضی میں بھی ترک حکومت سے متعلق بہت سے تنقیدی سوالات پوچھتی رہی ہے۔اس کے باوجود ترکی سے متعلق جرمن حکومت کی اس دستاویز کا ایک نیا اور اہم پہلو بھی ہے۔ جس روز جرمن ارکان پارلیمان نے میرکل حکومت سے پارلیمان میں ان سوالات کے جوابات طلب کیے تھے، اس کے اگلے ہی روز ترکی میں مسلح افواج کے ایک دھڑے کی طرف سے بغاوت کی کوشش کی گئی جو ناکام رہی تھی اور جس میں قریب تین سو افراد مارے گئے تھے۔

ناکام فوجی بغاوت کے بعد انقرہ حکومت نے ملک میں سرکاری اداروں کی ’تطہیر‘ کا جو عمل شروع کیا، اس دوران مسلح افواج کے ارکان سمیت ہزارہا سرکاری ملازمین برطرف یا گرفتار کر لیے گئے اور ساتھ ہی برلن اور انقرہ حکومتوں کے مابین باہمی تعلقات میں واضح دراڑیں بھی پیدا ہو گئیں۔اس دوران ترکی کی صورت حال ایک کھلا عوامی موضوع بن گئی۔ کولون میں ایردوآن کے حامی ہزارہا ترک نڑاد باشندوں نے مظاہرہ بھی کیا اور ترک شہریوں کے لیے یورپی یونین کے ویزا فری سفر کی ممکنہ سہولت سے متعلق انقرہ اور یورپی یونین کے مابین ہونے والے مکالمت اور اس بارے میں طے شدہ امور پر عوامی بحث بھی شروع ہو گئی۔

جولائی کے وسط میں ترکی میں ناکام فوجی بغاوت میں قریب تین سو افراد مارے گئے تھیپھر یہ سولات بھی اٹھائے گئے کہ آیا جرمنی میں ترک نڑاد مسلمانوں کی مسجدوں کے اتحاد Ditib کی طرف سے یہ کوشش بھی کی جا رہی ہے کہ وہ ان مسلم عبادت گاہوں کے ذریعے جرمنی میں ترک نسل کے باشندوں کو انقرہ میں ایردوآن انتظامیہ کے حق میں تحریک دے۔دوسری طرف ’دی لِنکے‘ کی طرف سے پارلیمان میں پوچھے گئے سوالات کے وفاقی حکومت کی طرف سے دیے گئے جوابات بھی ناامید کر دینے والے ہیں۔

وفاقی جرمن وزارت داخلہ میں ریاستی امور کے سیکرٹری اولے شروئیڈر کے مطابق ایسے معاملات میں وہ جرمن خفیہ اداروں کی طرف سے مہیا کردہ معلومات کے باعث کئی کئی سوالوں کے ایک ہی متن کے ساتھ جوابات دے دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہ ’جن وجوہات کا ذکر کیا گیا ہے، ان کی بنیاد پر وفاقی حکومت کے پاس اس سے زیادہ کوئی معلومات نہیں ہیں، جو کہ ذرائع ابلاغ نے اپنی رپورٹوں میں مہیا کی ہیں‘۔جرمن نشریاتی ادارے اے آر ڈی کے برلن اسٹوڈیو کے مطابق اس جواب میں مرکزی دستاویز کے ساتھ ہی ایک دوسری دستاویز بھی نتھی کی گئی ہے، جس کے بارے میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ’یہ معلومات شائع نہیں کی جا سکتیں اور صرف سرکاری استعمال کے لیے ہیں‘۔

متعلقہ عنوان :