قندیل بلوچ قتل کیس ، ملتان پولیس کے اعلی حکام کے کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے دعوے ٹھس

قتل کے مقدمہ کا مدعی ایس ایچ او تھانہ مظفر آباد سعید گجر کی بجائے مقتولہ کے والد محمد عظیم کو بنا کر قندیل قتل کیس کا بیڑہ غرق کر دیا گیا مقدمہ میں جو دفعات لگائی گئی ہیں ان کی موجودگی میں ملزمان کو سزا ملنا مشکل ہے،قانونی ذرائع

بدھ 17 اگست 2016 10:31

ملتان(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔17اگست۔2016ء) معروف ماڈل اور سوشل میڈیا سٹار قندیل بلوچ کے قتل کیس میں ملتان پولیس کے اعلی حکام کے کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے دعوے ٹھس اور قندیل بلوچ کے قتل کے مقدمہ کا مدعی ایس ایچ او تھانہ مظفر آباد سعید گجر کے بجائے مقتولہ قندیل بلوچ کے والد محمد عظیم کو بنا کر قندیل قتل کیس کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ قانونی ذرائع کے مطابق مقدمہ میں جو دفعات لگائی گئی ہیں ان کی موجودگی میں قندیل بلوچ کے قتل میں ملوث ملزمان کو سزا ملنا مشکل ہے ، جبکہ قندیل بلوچ کے قتل میں نامزد ملزم اس کے بھائی اسلم کو پاک فوج کے متعلقہ حکام کی جانب سے ملتان پولیس کی تحویل میں دینے سے انکار کردیا ہے ۔

تفصیلات کے مطابق ملک کی معروف ماڈل اور سوشل میڈیا سٹار قندیل بلوچ کے قتل کے مقدمے کا مدعی ملتان پولیس کے اعلی افسران کی جانب سے مقتولہ قندیل کے والد محمد عظیم کے بجائے ایس ایچ او تھانہ مظفر آباد سعید گجر کو بحثیت سٹیٹ مقدمہ کا مدعی بنا کر مقدمہ درج کرنا چاہیے تھا اور مقتولہ کے مدعی والد محمد عظیم سمیت وارثاں کو بھی ملزمان بنانا چاہیے تھا مگر ملتان پولیس کے اعلی حکام نے اپنے اعلی پولیس افسران اور پولیس کے لیگل ڈپارٹمنٹ کے افسران کی لیگل رائے سے اتفاق نہ کرتے ہوئے مقتولہ قندیل بلوچ کے مقدمہ میں قانونی سقم چھوڑ دیا ہے۔

(جاری ہے)

ذرائع کے مطابق مقتولہ قندیل بلوچ کے قتل کے مقدمہ کی FIR میں دفعہ 311 کے ساتھ دفعہ 305 ت، پ کا بھی اندراج کرنا چاہیے تھا ۔ مگر ملتان پولیس کے اعلی حکام نے عجلت اور ہڈ حرمی دکھا کر مقتولہ قندیل بلوچ کے کیس کا بیڑہ غرق کر دیا ہے او ر اب ملتان پولیس کے اعلی حکام اور تفتیشی افسران ہوا میں تیر چلا کر ٹامک ٹویاں مار رہے ہیں جن کے پاس مقتولہ قندیل بلوچ کیس کے مقدمہ کے ”صفحہ مثل “پرمقتولہ قندیل بلوچ کے قتل کی واردات میں ملوث ملزمان کے خلاف نہ کوئی عینی شاہد ہے اور نہ ہی کوئی ٹھوس شواہد ملتان پولیس مقتولہ قندیل بلوچ کے قتل کے مقدمہ کی مثل پر اب تک لا سکی ہے ۔

لیگل ذرائع کے مطابق آر پی او ملتان سلطان اعظم تیموری کی زیر صدارت مقتولہ قندیل بلوچ کے قتل کا مقدمہ درج کیے جانے سے قبل منعقدہ پہلے اجلاس میںآ ر پی او ملتان کے ایجنڈا کے منٹس میں درج ہے ۔ ذرائع کے مطابق اس موقع پر ملتان پولیس کے لیگل ذرائع نے یہ رائے دی تھی کہ قندیل بلوچ قتل کیس کے مقدمہ میں دفعہ 311 کے ساتھ دفعہ 305 ت، پ کا بھی اندراج کیا جائے کیونکہ دفعہ 305 ت ،پ لگائے جانے کی صورت میں مقدمہ کامدعی سٹیٹ کا افسر یعنی ایس ایچ او تھانہ مظفر آباد ملتان انسپکٹر سعید گجر ہو گا اور ایسی صورت میں مقدمہ کا مدعی ملزمان کو قصاص یا دیت یا معافی دے کر معاف نہ کر سکے گا اس موقع پر ڈسٹرکٹ اٹارنی نے کہا کہ وہ مقتولہ قندیل بلوچ کے قتل میں ملوث ملزمان کو سزا کرا کر دکھائیں گے جو کہ اب ممکن نظر نہیںآ تا اور مقدمہ کا مدعی متعلقہ عدالت میں کیس کی سماعت کے دوران کسی بھی موقع پر معاف کر سکتا ہے ۔

مگر اب جبکہ ملتان پولیس کے اعلی اور متعلقہ حکام نے مقتولہ قندیل بلوچ قتل کیس میں قانونی سقم چھوڑ کر کیس کا بیڑہ غرق کر دیا ہے اور مقتولہ قندیل بلوچ کے قتل کیس میں فرانزک رپورٹس اور دیگر ذرائع پر وقت اور پیسہ ذرائع کر رہے ہیں اور خالی تالاب سے مچھلیاں پکڑنے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہیں۔ذرائع کے مطابق ملتان پولیس کے اعلی حکام نے انٹرنیشنل فیم کے قندیل بلوچ کے مقدمہ قتل میں ملوث اس کے بھائی وسیم کی فوری گرفتاری دکھا کرخود کو بچانے کے لیے وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف اور آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا کی آنکھوں میں دھول جھونک دی ہے۔

ذرائع کے مطابق اب دیکھنا یہ ہے کہ مقتولہ قندیل بلوچ کے قتل کیس میں آگے آگے ہوتا ہے کیا؟؟قندیل بلوچ کے ساتھ سیلفیاں بنانے والے نامزد ملزم رویت ہلال کمیٹی کے سابق رکن مفتی عبد القوی کا مستقبل کیا ہو گا؟؟