جرمنی میں ایک سال میں کم عمری کی ایک ہزار سے زیادہ شادیاں

بدھ 17 اگست 2016 10:41

برلن( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔17اگست۔2016ء )کئی ترقی پذیر ملکوں میں تو کم عمری میں شادیاں ایک عام سی بات ہیں لیکن جرمنی میں بھی سن 2015ء کے بعد سے اب تک ایسے ایک ہزار سے زائد واقعات کا پتہ چلا ہے۔ خاص طور پر مہاجرین کے ہاں ایسے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔گزشتہ کچھ عرصے کے دوران جرمنی میں خصوصاً ترک وطن کر کے آنے والے روما نسل کے باشندوں میں لڑکیوں کی کم عمری ہی میں شادیوں کے زیادہ واقعات دیکھنے میں آئے ہیں۔

ایسا کرنے کا مقصد ان لڑکیوں کو سماجی تحفظ فراہم کرنا بتایا جاتا ہے۔اچھوت سمجھے جانے والی ذات ’دلت‘ گھرانوں میں ہر چار میں سے تین لڑکیوں کی شادی کم عمری میں کر دی جاتی ہے۔ 14سال کی عمر میں زبردستی رشتہ ازدواج میں بندھنے والی عاطفہ نے زندگی سے تنگ آکر اپنے جسم پر پٹرول چھڑکا اور گھر سے باہر نکل کر ماچس کی تیلی سے خود کو آگ لگا دیہندووٴں کے مقدس دن ’اکشیا تریتیا‘ کے موقع پر سینکڑوں بچوں کی شادیوں کو روکنے کے لیے ریاست راجھستان میں خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔

(جاری ہے)

ہندو مذہب میں اس دن کو انتہائی پاک تصور کیا جاتا ہیجرمن شہر بامبیرگ کی اعلیٰ صوبائی عدالت کا وہ تازہ فیصلہ بہت زیادہ سیاسی اور سماجی اہمیت کا حامل ہے، جس میں ججوں نے ایک پندرہ سالہ شامی لڑکی اور اْس کے اکیس سالہ شوہر کی شام میں ہونے والی شادی کو تسلیم کر لیا۔ یہ دونوں مہاجرین کے طور پر شام سے فرار ہو کر جرمن صوبے باویریا آئے تھے۔ اس سے پہلے نوعمروں کے امور کے دفتر نے اس شادی کو نامنظور کرتے ہوئے اس شامی لڑکی کو اپنی نگرانی میں لینے کی کوشش کی تھی، جس پر اس نوجوان جوڑے نے عدالت سے رجوع کر لیا تھا

متعلقہ عنوان :