لاہور سے بچے اغوا نہیں ہوئے بلکہ وہ مسنگ ہیں،آئی جی پنجاب

بچوں کے اغوا کا معاملہ جس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے پورے شہر میں خوف و ہراس پھیلا رکھا ہے حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے، مشتاق سکھیر ا کی خصوصی گفتگو

منگل 16 اگست 2016 10:38

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔16اگست۔2016ء) ایس ایس پی انویسٹی گیشن حسن مشتاق سکھیرا نے کہا ہے کہ شہر سے بچے اغوا نہیں ہوئے بلکہ وہ مسنگ ہیں۔ بچوں کے اغوا کا معاملہ جس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے اس نے پورے شہر میں خوف و ہراس پھیلا رکھا ہے حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ 2 سالوں میں بچوں کے اغوا کے صرف 4 کیسز سامنے آئے ہیں ایک کیس میں بچے کی ماں بھی جائیداد کی لالچ میں ملوث تھی۔

چاروں مقدمات میں ملزمان چالان ہوکر جیل جا چکے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اصل میں یہ بچے اغوا نہیں ہوئے بلکہ مسنگ ہیں اور گھروں سے بھاگ جانے والے ہیں۔ ان بھاگنے والے بچوں میں صد فیصد بچے غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

(جاری ہے)

غربت کی وجہ سے والدین اُنہیں مدرسوں ورکشاپوں پر مختلف دکانوں پر بھجوا دیتے ہیں جس کی وجہ سے اُنہیں آزادی مل جاتی ہے اور وہ اپنی پیدا شدہ آمدن کو دھڑلے سے خرچ کرنے کے لئے گھروں سے غائب ہو جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بچے مدرسوں میں مار پیٹ کے باعث بھاگ جاتے ہیں۔ گھریلو تنازعات جن میں میاں بیوی کے جھگڑے، لعن تان بھی بچوں کو گھروں سے باغی کر دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالات اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ گزشتہ روز میں ایک ماں اپنے بچے کے ساتھ جارہی تھی کہ بچہ اغوا کے شبہ میں غریب کو مار مار کر ادھ موا کردیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر مقدمات درج کئے جارہے ہیں اب لوگ خود ڈھونڈے کی کوشش کرے کی بجائے سیدھا تھانے پہنچ کر ایف آئی آر درج کروا دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مقدمات کے فوری اندراج کی سہولت کے باعث مقدمات کی تعداد میں اندھا دھند اضافہ ہو رہا ہے اور پھر میڈیا اُن مقدمات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے جس کے باعث شہر میں بچوں کے اغوا کے حوالے سے خوف وہراس کے علاوہ ایک کشیدہ ماحول پیدہ ہو گیا ہے جس کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اغوا برائے تاوان کا کوئی ایک مقدمہ بھی درج نہیں ہوا۔ گھروں سے بھاگتے والے بچے باہر ٹھوکریں کھانے کے بعد خود ہی واپس آرہے ہیں۔

متعلقہ عنوان :