طالبان سربراہ ملا منصور کی موت نے افغانستان میں جاری لڑائی میں شدت پیدا کر دی، امریکہ کا اعتراف

اتوار 31 جولائی 2016 11:35

واشنگٹن( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔31جولائی۔2016ء ) امریکی حکام نے خبردار کیا ہے کہ طالبان سربراہ ملا منصور کی موت نے افغانستان میں جاری لڑائی میں شدت پیدا کر دی ہے، جبکہ افغان امن عمل کا مستقبل بھی اب غیر یقینی کا شکار ہوگیا ہے۔ کانگریس کو اپنے سہہ ماہی رپورٹ پیش کرتے ہوئے امریکی خصوصی انسپکٹر جنرل برائے افغان تعمیرِ نو نے مشاہدہ پیش کیا کہ اس سال کی دوسری سہہ ماہی میں طالبان نے ایک اور علاقے پر قابض ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں جبکہ اب ملک کے 400 ضلعوں میں سے 19 پہلے ہی ان کے کنٹرول میں ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "ملا منصور کی موت سے طالبان قیادت میں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، لڑائی نے شدت اختیار کی ہے، اور امن عمل کو غیر یقینی کیفیت کا شکار کر دیا ہے۔

(جاری ہے)

"یاد رہے کہ ملا منصور 21 مئی کو ایران سے واپس آتے ہوئے بلوچستان میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہوگئے تھے۔افغان سرحد کے قریب پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ڈرون حملے کا حکم دینے والے امریکی صدر براک اوباما نے کہا کہ انہیں اس لیے نشانہ بنایا گیا کیونکہ وہ امریکی حمایت سے افغان حکومت کے ساتھ ہونے والے امن مذاکرات میں شمولیت سے انکار کر رہے تھے۔

مگر کانگریس کو پیش کی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغان حکومت کو حزبِ اسلامی جنگجو گروپ کے ساتھ مذاکرات میں کچھ کامیابی حاصل ہوئی تھی، اور افغان حکومت نے امن معاہدے کے لیے ایک حتمی مسودہ تیار کیا تھا جسے اعلیٰ امن کونسل کی منظوری حاصل تھی۔رپورٹ کے مطابق جون کے اختتام تک امن مذاکرات ٹھنڈے پڑ گئے تھے، اور اس وقت مکمل طور پر ختم ہوگئے جب حزبِ اسلامی کے رہنما گلبدین حکمت یار نے مذاکرات سے دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے افغان حکومت کی تحلیل کا مطالبہ کیا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکی افواج کی جانب سے فراہم کردہ ڈیٹا کے مطابق اس سال افغان حکومت کے زیرِ انتظام علاقے میں پانچ فیصد کمی ہوئی ہے۔ حکومت کا زیرِ انتظام علاقہ گذشتہ سال مئی کے اختتام تک 70.5 فیصد تھا جبکہ اس سال یہ 65.6 فیصد ہے۔افغانستان میں امریکی افواج کے کمانڈر جنرل جان نکلسن کے مطابق طالبان کے زیرِ انتظام زیادہ تر علاقے دیہی ہیں۔

مگر افغان حکام کے مطابق حتمی اعداد و شمار موجود نہیں ہیں کیونکہ طالبان اور دیگر مسلح گروہوں کے ساتھ جنگ جاری ہے۔امریکا افغان سکیورٹی فورسز کو تربیت اور ساز و سامان فراہم کر رہا ہے تاکہ ملکی سکیورٹی افغان فورسز کے حوالے کر کے امریکی فوجیوں کا انخلاء کیا جا سکے، مگر اس سال کے اوائل میں امریکی صدر اوباما نے اپنے فوجیوں کو طالبان کے خلاف لڑائی میں شمولیت کا حکم دیا، جبکہ طالبان اہداف کے خلاف فضائی حملوں کی بھی اجازت دی۔