سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں بچوں کے اغوا بارے ازخود نوٹس کی سماعت

2015سے جولائی2016کے دوران پنجاب سے 1808بچے اغوا ہوئے ،1093بچوں کوبازیاب کروالیا گیا پولیس نے واردتوں کو روکنے اور بچوں کی بازیابی کے لئے موثر حکمت عملی تیار کرلی ہے ، ایڈیشنل آئی جی آپریشن عارف نواز نے پروجیکٹر کی مدد سے عدالت کو بچوں کے اغوا اور بازیابی کے بارے میں اعدادوشمار کے حوالے سے تفصیلات بتائیں ریاست کی ذمہ داری ہے وہ عوام کے جان ومال کا تحفظ کرے، جب وہ ایسا نہ کرے تو پھر عدالت کو مداخلت کرنا پڑتی ہے،جسٹس ثاقب نثار ک ریمارکس سماعت بدھ، 3اگست تک ملتوی

جمعہ 29 جولائی 2016 10:25

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔29جولائی۔2016ء) سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں بچوں کے اغوا کے بارے میں ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی۔ جسٹس میاں ثاقب نثار اورجسٹس عبدالرحمن پر مبنی دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ اس موقع پر ایڈیشنل آئی جی نواز، ڈی آئی جی آپریشنز ڈاکٹر حیدر اشرف اور سی سی پی سمیت اعلیٰ پولیس حکام بھی موجود تھے۔ اس کیس کی سماعت کے درمیان ایڈیشنل آئی جی آپریشن عارف نواز نے پروجیکٹر کی مدد سے عدالت کو بچوں کے اغوا اور بازیابی کے بارے میں اعدادوشمار کے حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ 2015سے جولائی2016کے دوران پنجاب سے 1808بچے اغوا ہوئے جبکہ1093بچوں کوبازیاب کروالیا گیا ۔

گزشتہ سات ماہ کے دوران767بچے اغوا ہوئے اور جن میں سے715بچے بازیاب ہوچکے ہیں۔

(جاری ہے)

اے آئی جی نے مزید بتایا کہ اغوا ہونے والے بچوں یک عمر میں6سے 15برس تک ہیں۔ پولیس نے ان واردتوں کو روکنے کے لئے اور بچوں کی بازیابی کے لئے موثر حکمت عملی تیار کرلی ہے۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ یہ رپورٹیں سپریم کورٹ کو دکھانے کے لئے لاتے ہیں یا پھر صوبے کے سربراہ کو ۔

اس پر عارف نواز نے جواب میں کہا کہ یہ رپورٹیں سپریم کورٹ کے روبرو پیش کرنے کے لئے لائے ہیں۔ سپریم کورٹ جلد نتائج دیکھے گی اور خوش ہوگی۔ جسٹس ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے جان ومال کا تحفظ کرے، جب وہ ایسا نہ کرے تو پھر عدالت کو مداخلت کرنا پڑتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کے لاپتہ ہونے اوراغوا ہونے کے معاملات جو انتہائی حساس نوعیت کے ہیں کو حل کرنے کے لئے اپنی کوششوں کو مزید فعال کرنا چاہیے۔

عدالت ہر حال میں اس کی تہہ تک جائے گی۔ عدالت نے مزید کہا کہ اب عدالت اس کو انسانی حقوق کی بنیاد پر دیکھ رہی ہے اور اس کی تہہ تک جائے گی کہ بچوں کو اغوا کیوں کیا جاتا ہے اور وجوہات کیا ہیں۔ عدالت میں یہ بھی دیکھے گی کہ ان واقعات کے تدارک کے لئے کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ عدالت نے اغوا ہونے والے دس بچو ں کی تفتیش کا ریکارڈ عدالت میں پیش کریں۔

ان میں ایسے بچے بھی ہیں جو تاوان کے لئے اغوا ہوئے ہیں، لوگ پیسے لے دیکر چھڑواتے ہیں اور ایسے کیسو ں میں لواحقین مقدمے درج کرواتے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ بچوں کو جسمانی اعضاء فروخت کرنے کے لئے بھی اغوا کیا جاتا ہے۔ آئی جی نے بتایا کہ ایسی شکایات گجرات اور اس کے گردونواح سے موصول ہوئی ہیں۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ پولیس کی رپورٹوں پر معاملے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ سول سوسائٹی اور ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ عدالت کی معاونت کرے اور اپنی سفارشات یکم اگست تک جمع کروادیں۔ اس کے ساتھ ہی سماعت بدھ، 3اگست تک ملتوی کردی گئی۔