نظرانداز طبقات کے حقوق کا تحفظ،چیئرمین سینیٹ نے سپیشل کمیٹی تشکیل دیدی

کمیٹی نظرانداز طبقات کے حوالے سے قوانین کا جائزہ لے، قوانین میں بہتری ہو سکتی ہے تو ترامیم تجویزکرکے مسودہ ایوان میں پیش کرے،چیئرمین سینٹ نظر انداز کا ایشو پاکستان میں سرایت کررہا ہے، پشاور میں خواجہ سراؤں ، کیلاش وادی میں مخصوص کمیونٹی کیخلاف واقعات رونما ہوئے،مشاہد حسین کی تحریک پر بحث

بدھ 27 جولائی 2016 09:57

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔27جولائی۔2016ء) چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے معاشرے کے نظرانداز طبقات کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک سپیشل کمیٹی تشکیل دے دی، اپنی نظرانداز طبقات کے لیے کام رکنے والے اداروں کو تنظیموں سے رابطہ قائم کرے گی، کمیٹی نظرانداز طبقات کے حوالے سے موجودہ قوانین کا جائزہ لے گی اور اگر قوانین میں بہتری ہو سکتی ہے تو اس میں ترامیم تجویز دیں اور اس کا مسودہ ایوان میں پیش کرے، سربراہ کمیٹی نظرانداز طبقات کے لیے پیکیج کا اعلان کرے جس میں نظرانداز طبقات کے مسائل دور کرنے کے حوالے سے تجاویز ہوں، اس کے علاوہ ایسے ادارے جو پارلیمانی کے ایکٹ کے تحت بنے ہیں جن میں نیشنل کمیشن فار ہومن رائٹس اور نیشنل کمیشن فار ویمن اسپشل کو فعال بتایا جائے ان کی ڈپلیکشن مہم ختم کیا جائے، جبکہ کمیٹی دو ماہ کے بعد اپنی سوالات ایوان میں پیش کرے گی اور اس کی رپورٹ پر بحث کی جائے گی، منگل کے روز ایوان بالا کے اجلاس میں معاشرے کے نظرانداز طبقات سے تعلق قوانین اور پالیسیوں، غیر محفوظ بچوں، خواتین، معزوروں، خواجہ سراوں اوراقلیتوں پر بحث کے حوالے سے سینیٹر مشاہد حسین سید کی تحریک پر بحث کی گئی، اس موقع پر چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ کوئی احمقوں کی جنت میں نہ رہے کہ حکومت معاشرے کے نظرانداز طبقات کے لیے کوئی کمیشن قائم کرے گی، ایک اہم موضوع پر بحث جاری ہے مگر حکومت کا کوئی وزیر موجود نہیں ہے، اس سے قبل تحریک پر بحث کرتے ہوئے مشاہد حسین سید نے کہا کہ نظر انداز کا ایشو پاکستان میں سرایت کررہا ہے پشاور میں خواجہ سراؤں کے خلاف اور کیلاش وادی میں مخصوص کمیونٹی کیخلاف واقعات رونما ہوئے ہیں پاکستان میں پانچ سے دس خصوصی کمیونٹی اس زد میں آئی ہیں نظر انداز یافتہ طبقہ کا ایشو ڈسکس کرنے کیلئے ایک سپیشل کمیٹی بنانے کی ضرورت ہے ایک خاص وقت میں اس پر بحث کی جائے گی ۔

(جاری ہے)

سینیٹر ذاکر کریم خواجہ نے کہا کہ خواجہ سراؤں کیلئے قانون سازی کی ضرورت ہے پاکستان کا ہر شہری برابر ہے پشاور میں جس طرح اس کمیونٹی کا قتل ہوا ہے وہ افسوسناک ہے شناختی کارڈ میں ان کو تیسری کمیونٹی ظاہر ہونا چاہیے ان کی شادی کے حوالے سے بات کرنے کی ضرورت ہے سابق چیف جسٹس نے ان کے لئے ایک فیصلہ بھی جاری کیا تھا کہ ان کو معاشرے کا حصہ بنانے کیلئے اقدامات کئے جائیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہورہا ہے انہوں نے کہا کہ سندھ میں نان مسلم کے لوگوں کو مراعات نہیں دی جارہی ہیں ان کے ساتھ ظلم کیا جاتا ہے محروم یافتہ طبقہ کے لئے قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے اس کے علاوہ دیگر کمیونٹیز کو بھی کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ ایدھی تو روز روز پیدا نہیں ہوتے مگر پاکستان سویٹ ہومز میں بچوں کی بہتری کیلئے جو کام کیا جارہا ہے وہ قابل تعریف ہے پاکستان کے تمام شہریوں کے لئے برابری کی بنیاد پر قانون سازی ہونی چاہیے ایوان بالا میں غیرت کے نام پر بل پیش کیا تھا لیکن وہ لیپس ہوگیا اب اس کو تین سال بعدپارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں دوبارہ لایا جارہا ہے حکومتی رویہ کی مذمت کرنے کی ضرورت ہے سینیٹر سمینہ عابد نے کہا کہ نظر انداز طبقات کا پاکستان میں اتنا ہی حق ہے جتنا دیگر لوگوں کا ہے لیکن بدقسمتی سے ان کو حق نہیں دیا جارہا ہے بچوں کی ولدیت کے حوالے سے سینٹ میں بل پڑا ہے اس کو بھی پاس کروایا جائے خواجہ سراؤں نے اب بھیگ مانگنا چھوڑ دیا ہے کیونکہ ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے ڈومیسٹک ورکر روزانہ ایک ڈالر پر مزدوری کررہے ہیں اس کے علاوہ چھوٹے بچے بچیوں کو زبردستی کام کروایا جاتا ہے کلاس کے لوگوں پر بہت ظلم ہورہا ہے سینٹر وسیم نے کہا کہ قائداعظم نے گیارہ اگست کو قانون سازی اسمبلی سے خطاب کیا تھا جس کے تحت ہر کسی کو اپنے مذہب کی آزادی ہوگی ہر کوئی جہاں دل کرے جاسکتا ہے پاکستان میں غیر مسلم کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے حکومت اس کی جانب کوئی توجہ نہیں دے رہی انہوں نے کہا کہ قوم ہیروز کی کارکردگی کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے قومی ترانہ لکھنے والے کو بھی اجاگر کرنے کی ضرورت ہے سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ حکومت کو نظر انداز طبقات کی جانب سے توجہ دینے کی ضرورت ہے زمرد خان پاکستان سویٹ ہومز میں بچوں کی تربیت اچھے طریقے سے کررہے ہیں معاشرے میں تبدیلی لانے کیلئے تعلیم کو استعمال میں لانے کی ضرورت ہے ۔

سینیٹر عتیق شیخ نے کہا کہ معاشرے میں بہت سے افراد کو قانونی طورپر تحفظ حاصل ہے لیکن حقیقت میں نہیں ہے ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ان افراد کو کن لوگوں نے نظر انداز ہونے والے طبقہ بتایا ہے اس پر قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے ۔ سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ قرآن مجید میں اقربا کے حقوق کے بعد سب سے زائد حقوق یتیموں کو دیا گیا ہے ترقی یافتہ ممالک میں نظر انداز طبقہ اور دیگر لوگ برابر ہیں پاکستان میں بھی سب کے لئے ایک جیسا قانون بنانے کی ضرورت ہے زمرد خان اور عبدالستار ایدھی نے جو کام کیا ہے اور کررہے ہیں اس کی مثال کم ہی ملتی ہے سینیٹر گیان چند نے کہا کہ پاکستان میں کچھ طبقوں کیلئے حالات اچھے نہیں ہیں نظر انداز ہونے والے طبقوں کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے حکومت ان کے لئے مراعات کا اعلان کرے حکومت خواجہ سراؤں اور دیگر محروم یافتہ طبقے کے لئے نوکریاں پیدا کرے حکومت شیڈول کاسٹ کا کوٹہ بحال کرتے ہوئے ایک سپیشل کمیٹی تشکیل دے تاکہ نظرانداز ہونے والے طبقہ کے لئے قانون سازی کی جاسکے سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ پاکستان میں اکثریت نظر انداز طبقہ کی ہے یہاں پر دوسرے کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے اور ان کی سہولیات سے فائدہ اٹھانے والے لوگ موجود ہیں ایک خاص طبقہ نے اس ملک کے مسائل کو اپنا سمجھا ہی نہیں اکثریت کو زندہ رکھنے کیلئے کچھ حصہ دیتے ہیں نظر انداز یافتہ طبقہ کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری ریاست کی ذمہ داری ہے، اس ملک کی مثبت روایات کو نافذ کرنا چاہیے، معذور لوگوں کے لیے ہسپتال میں الگ وارڈ ہونا چاہیے، سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ نظرانداز طبقہ کے لیے ایک کمیشن بنانے کی ضرورت ہے، حکومت کی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کوئی حکومتی وزیر یہاں موجود نہیں ہے، ان طبقات کی بہتری کے لیے کام کرنا حکومت کی ترجیح ہیں مسائل نہیں ہے، سینیٹر نسرین جلیل، سینیٹر جنرل (ر) عبدالقیوم، سینیٹر روبینہ عابد، سینیٹر نہال ہاشمی، سینیٹر میر کبیر، سینیٹر حافظ حمد اللہ، سینیٹر مندو خیل، سینیٹر محمد حمزہ نے بحث میں حصہ لیا۔