ترکی: ہزاروں نجی سکولوں اور تنظیموں کو بند کرنے کا حکم

کسی شخص کو فرد جرم عائد کیے بغیر حراست میں رکھنے کی مدت میں اضافہ کردیا گیا

اتوار 24 جولائی 2016 11:13

استنبول( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔24جولائی۔2016ء )ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے ملک میں ایک ہزار نجی سکولوں اور 1,200 سے زائد تنظیموں کو بند کرنے کا حکم دے دیا ہے اور کسی شخص کو فرد جرم عائد کیے بغیر حراست میں رکھنے کی مدت میں اضافہ کر دیا ہے۔ سرکاری بیان کے مطابق صدر ادوغان نے کسی بھی شخص کو بغیر عذر بتائے حراست میں رکھنے مدر چار دن سے بڑھا کر 30 دن کر دی ہے۔

گذشتہ جمعے کو ترکی میں فوج کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی گئی تھی تاہم وہ ناکام ہو گئی اور ناکام بغاوت کے بعد حکومت کی کارروائیوں میں اب تک کم از کم 60 ہزار سرکاری ملازمین کو معطل کیا جا چکا ہے یا حراست میں لیا جا چکا ہے۔خیال رہے کہ ترک حکومت امریکہ میں مقیم مبلغ فتح االلہ گولن پر الزام عائد کرتی ہے کہ ملک میں بغاوت ان کی ایما پر کی گئی ہے تاہم وہ اس کی تردید کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

سرکاری بیان کے مطابق صدر طیب اردوغان نے کہا کہ ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ سے حکام کو موقع ملے گا کہ وہ ناکام بغاوت سے پیدا ہونے والی صورتحال سے موثر انداز میں نمٹ سکیں اور ملک میں حالات کو معمول پر لا سکیں۔گذشتہ ہفتے کے دوران حکام نے جن افراد کے خلاف کارروائیاں کی ہیں ان میں سے نصف سے زیادہ کا تعلق وزارت تعلیم، پرائیویٹ سکولوں یا یونیورسٹیوں سے ہے جن میں یونیورسٹیوں کے مختلف شعبوں کے سربراہ بھی شامل ہیں۔

ان کے علاوہ گذشتہ دنوں میں حراست میں لیے جانے والے 60 ہزار افراد میں ہزاروں سپاہی، پولیس اہلکار اور دیگر سرکاری ملازمین شامل تھے، تاہم ان میں سے ان سینکڑوں فوجیوں کو رہا کر دیا گیا ہے جنھیں جبری بھرتی کیا گیا تھا۔ترکی کے سرکاری خبر رساں ادارے انادولو کے مطابق سنیچر کو جن سکولوں اور تنظیموں کو بند کرنے کا حکام دیا گیا ہے ان کے بارے میں حکومت کو شک ہے کہ فتح االلہ گولن کے ساتھ روابط ہیں۔

ان کے علاوہ جن دیگر اداروں یا تنظیموں کو بند کرنے کا حکم دیا گیا ہے ان میں مزدوروں کی 19 تنظیمیں، 15 یونیورسٹیاں، 35 طبی ادارے اور ہوسٹل شامل ہیں۔حالیہ پابندیوں کے حوالے سے صدر ادوغان کو فرانس، جرمنی اور یورپی یونین کے اعلیٰ حکام کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے، لیکن اپنے ان فیصلوں کا دفاع کرتے ہوئے ترکی کا کہنا ہے کہ ’صرف ان لوگوں کے خلاف کارروائی کی جاری ہے جن کے بارے میں سو فیصد یقین ہے کہ بغاوت کے پیچھے ان کا ہاتھ تھا۔‘