ڈھاکا : کیفے پر ہونے والے دہشتگرد حملے میں بچ جانے والے 2 افراد لاپتہ

دونوں سے ابتداء میں تفتیش کی گئی مگر اب یہ دونوں اس کی حراست میں نہیں،ان دونوں کے تحفظ کے حوالے سے خدشات بڑھ رہے ہیں ، پولیس

جمعرات 14 جولائی 2016 11:10

ڈھاکا (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔14جولائی۔2016ء) بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں گزشتہ دنوں ایک کیفے پر ہونے والے دہشتگرد حملے میں بچ جانے والے 2 افراد لاپتہ ہوگئے ہیں جن کے بارے میں رشتے داروں اور سماجی گروپس نے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انتظامیہ سے ڈھاکے کے کیفے پر ہونے والے حملے میں بچنے والے حسنات کریم کے بارے میں معلومات سامنے لانے کا مطالبہ کیا ہے جو گیارہ روز قبل تفتیش کے لیے حراست میں لیے جانے کے بعد سے لاپتہ ہے۔

اسی طرح تہمید خان کے رشتے داروں کا کہنا ہے کہ وہ ٹورنٹو یونیورسٹی کے 22 سالہ طالبعلم کے بارے میں مکمل طور پر لاعلم ہیں جسے حملے کے بعد تفتیش کے لیے پولیس نے حراست میں لیا تھا۔یکم جولائی کی شب ڈھاکا کے ہولی آرٹیسن ریسٹورنٹ پر عسکریت پسندوں کے حملے میں 20 شہری اور 2 پولیس اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔

(جاری ہے)

فوجی کمانڈوز نے صبح کے وقت کیفے پر دھاوا بول کر پانچ حملہ آوروں کو ہلاک کرکے 13 افراد کو بازیاب کرایا تھا جن میں حسنات کریم اور تہمید خان بھی شامل تھے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ دونوں سے ابتداء میں تفتیش کی گئی مگر اب یہ دونوں اس کی حراست میں نہیں۔ڈھاکا پولیس کے ترجمان مدثر رحمان نے کہا ہے کہ اقعے کے فوری بعد ہم نے ان سے بات چیت کی تھی، مگر اب وہ پولیس کی تحویل میں نہیں"۔ان دونوں کے تحفظ کے حوالے سے خدشات بڑھ رہے ہیں جس کی وجہ گزشتہ دنوں سامنے آنے والا ایک واقعہ ہے ،جس میں ایک اٹھارہ سالہ زخمی نوجوان جسے حملہ آوروں کے قبضے سے نکالنے کے بعد مشتبہ قرار دیا، ہسپتال میں اس وقت چل بسا جب اس کے والد نے سیکیورٹی فورسز پر بیٹے پر تشدد کرنے کا دعویٰ کیا۔

حسنات کریم اور تہمید خان کے رشتے داروں کا اصرار ہے کہ دونوں افراد کا حملے سے کوئی تعلق نہیں جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔حسنات کی بیوی شرمینہ پروین، جو کہ دو بچوں کے ہمراہ حملہ آوروں کے قبضے میں رہی تھیں، کا کہنا تھا کہ انہیں اپنے شوہر کے حوالے سے خدشات لاحق ہیں۔انہوں نے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے مقامی گروپس کے نام ایک بیان میں کہا " میرے شوہر بے گناہ ہیں، وہ پہلے ہی کافی تکلیف اٹھا چکے ہیں، خدارا انہیں اپنے خاندان کے پاس گھر آنا دیا جائے"۔

مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق اس واقعے کے دوران ان دونوں کی مشتبہ سرگرمیوں پر تفتیش کی گئی تھی۔تہمید خان کے بھائی طلحہ خان کا کہنا تھا " ہم قومی سلامتی کے مسئلے کو سمجھتے ہیں، مگر کم از کم اسے یہ بتانے دیا جائے کہ وہ کہاں ہے اور والدین کو اسے دیکھنے کی اجازت دی جائے"۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جنوبی ایشیاء کی ڈائریکٹر چمپا پٹیل کے مطابق " حسنات کریم کے خاندان کو اس تکلیف دہ واقعے سے پہلے ہی کافی مشکل اٹھانا پڑی ہے اور اس کی جبری گمشدگی سے اس اذیت کا دورانیہ مزید طویل ہوگیا ہے"۔

متعلقہ عنوان :