رومی تمہارا نہیں ہے

افغانستان کا ا یران اور ترکی کی جانب سے رومی کو اپنانے پر شدید ردعمل کا اظہار مشہور صوفی شاعر اور مفکر جلال الدین رومی کو قومی ورثہ قرار دینے کے لیے کوششیں شروع کردی رومی کی زندگی پر ایک ہالی ووڈ فلم بھی بنائی جارہی ہے ، مرکزی کردار آسکر ایوارڈ یافتہ لیونارڈو ڈی کیپریو کر رہے ہیں

جمعہ 1 جولائی 2016 10:36

کابل(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔1جولائی۔2016ء) افغانستان نے مشہور صوفی شاعر اور مفکر جلال الدین رومی کو قومی ورثہ قرار دینے کے لیے کوششیں شروع کردی ہیں۔ افغانستان نے ایران اور ترکی کی جانب سے رومی کو اپنانے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔تفصیلات کے مطابق تہران اور انقرہ رومی کی تخلیقات کو مربوط کر رہے ہیں جس کے بعد اسے اقوام متحدہ کے کتابچے ’دنیا کی یادیں‘ میں اپنے مشترکہ ثقافتی ورثے کی حیثیت سے جمع کروائیں گے۔

اقوام متحدہ کے تعلیم، سائنس اور ثقافتی ادارے یونیسکو نے 1997 میں اس کتابچے کی بنیاد ڈالی تھی۔ اس کتابچے کا مقصد خاص طور پر جنگ زدہ اور شورش زدہ ممالک کے ادبی ورثے کو جمع اور محفوظ کرنا ہے۔اس سلسلے میں رومی کو ’اپنا‘ شاعر قرار دینے کی ترک اور ایرانی کوششوں کو افغانستان نے مسترد کرتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔

(جاری ہے)

رومی بلخ میں پیدا ہوئے تھے جو اب افغانستان کا حصہ ہے۔

افغان ثقافت و نشریات کی وزارت کے مطابق رومی ان کا فخر ہے۔ترجمان وزارت ہارون حکلیمی نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ’یونیسکو نے کبھی بھی ہم سے اس بارے میں رائے نہیں مانگی۔ لیکن ہم پرامید ہیں کہ ہم اپنا دعویٰ ثابت کردیں گے‘۔رومی کی تصنیفات امریکا میں بیسٹ سیلر میں شمار ہوتی ہیں۔ ان کی تخلیقات کو 23 زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔رومی کی زندگی پر ایک ہالی ووڈ فلم بھی بنائی جارہی ہے جس میں مرکزی کردار آسکر ایوارڈ یافتہ لیونارڈو ڈی کیپریو کر رہے ہیں۔

بلخ کے گورنر جنرل عطا محمد نور نے اقوام متحدہ میں افغان نمائندے کو اس مسئلہ کو اقوام متحدہ کے سامنے اٹھانے اور اس پر احتجاج کرنے کو کہا ہے۔ان کا کہنا ہے، ’رومی کو صرف 2 ممالک تک محدود کرنا ناانصافی ہے۔ رومی ایک عالمی مفکر ہے اور دنیا بھر میں اس کے چاہنے والے موجود ہیں‘۔مشہور صوفی شاعر اور مفکر جلال الدین رومی 1207 میں بلخ میں پیدا ہوئے تھے جو اس وقت افغانستان کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے لیکن رومی کے زمانے میں یہ ایک مذہبی دارالخلافہ تھا اور بدھوں اور فارسی ادب کا مرکز تھا۔

بعض موٴرخین کے مطابق بلخ اس وقت موجودہ تاجکستان کا حصہ تھا۔ منگول جنگجو چنگیز خان نے بھی 1221 میں اس پر حملہ کیا تھا۔منگولوں کے حملے کے دوران رومی نے وہاں سے ہجرت کرلی اور بغداد، مکہ اور دمشق کا سفر کرتے ہوئے ترکی کے شہر قونیہ ا آگئے جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے 50 سے زائد برس گزارے۔یہیں ان کی ملاقات شمس تبریزی سے ہوئی۔ شمس تبریزی نے رومی کے خیالات و افکار پر گہر اثر ڈالا۔

متعلقہ عنوان :