اسرائیل ترکی کو غزہ جانے والے امدادی بحری قافلے کے خلاف کمانڈو ایکشن پر 20 ملین ڈالرز بطور زر تلافی ادا کرے گا، معاہدہ طے،دستخط(آج)ہوں گے

منگل 28 جون 2016 10:30

انقرہ (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔28جون۔2016ء)اسرائیل اور ترکی کے درمیان چھ سال تک جاری رہنے والے تنازعے کے بعد ایک معاہدہ ہو گیا ہے جس کی رْو سے اسرائیل 2010ء میں غزہ جانے والے ایک امدادی بحری قافلے کے خلاف کمانڈو ایکشن پر 20 ملین ڈالرز بطور زر تلافی ادا کرے گا۔یہ بات ترک وزیر اعظم بِن علی یلدرم نے دارالحکومت انقرہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یلدرم کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کے مطابق دونوں ممالک کے سفیر بھی جلد از جلد ایک دوسرے کے ہاں لوٹ جائیں گے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق دونوں ممالک اس معاہدے تک پہنچنے کے لیے کئی ماہ سے تیسرے ملک میں بات چیت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ اسرائیل نے ترکی کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے تْرکی کی دو اہم شرائط کو پورا کرنے کی حامی بھری ہے۔

(جاری ہے)

ان میں سے ایک غزہ جانے والے امدادی بحری قافلے پر اسرائیلی کمانڈوز کے چھاپے پر معافی مانگنا اور دوسرا اس کی مالی تلافی ہے۔

اس کمانڈو ایکشن میں ترکی سے تعلق رکھنے والے 10 انسانی حقوق کے کارکن ہلاک ہو گئے تھے۔ترک وزیر اعظم بِن علی یلدرم کے مطابق اس معاہدے کی رْو سے ترکی کو اس بات کی اجازت مل جائے گی کہ وہ حماس کے کنٹرول والے فلسطینی علاقے میں امداد پہنچا سکے۔ یلدرم کے مطابق ہماری طرف سے ہمارے پہلے بحری جہاز پر 10 ہزار ٹن انسانی بنیادوں پر امدادی سامان لاد دیا گیا ہے اور یہ اسرائیل کی اشدود بندرگاہ کے لیے جمعے کے روز روانہ ہو گا۔

تْرک وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اس معاہدے پر دستخط (آج) منگل 28 جون کو ہوں گے جس کے بعد انقرہ چند ہفتوں کے اندر اندر تل ابیب کے لیے اپنا سفیر مقرر کر دے گا۔ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اس معاہدے کے عمل میں آنے کے باوجود غزہ کی بحری ناکہ بندی جاری رہے گی۔اے ایف پی کے مطابق جب بن علی یلدرم سے پوچھا گیا کہ کیا ترکی حماس کو اسرائیل کے خلاف حملوں سے باز رکھنے میں مدد کرے گا، ان کا کہنا تھا کہ یہ جنگ بندی معاہدہ نہیں ہے۔

ہم نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے ایک معاہدے پر اتفاق کیا ہے۔دریں اثناء اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اسرائیل اور ترکی کے درمیان ہونے والے اس متوقع معاہدے اور دونوں ممالک کے درمیان کئی برسوں کے تلخ تعلقات کو معمول پر لانے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ انہوں نے اسے علاقے کے استحکام کے لیے ایک امید افز علامت قرار دیا ہے۔

متعلقہ عنوان :