عوام کا فیصلہ من و عن تسلیم، ڈیوڈ کیمرون وزیر اعظم کے عہدے سے مستعفی

6 سال تک وزیر اعظم کے عہدے پر رہنے پر فخر ہے،پارلیمانی نظام میں برطانیہ کی بقاء ہے،ہماری حکومت نے اقتصادی ترقی میں اہم کردار اداکیا ،سیاسی عدم استحکام سے بچنے کیلئے عہدہ چھوڑ دیا،یورپی یونین سے علیحدگی کے باوجود وہاں کے باشندے یہاں رہ سکتے ہیں،ڈیوڈ کیمرون

ہفتہ 25 جون 2016 10:12

لندن (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔25جون۔2016ء) برطانوی عوام کی جانب سے یورپی یونین سے انخلا کے حق میں ووٹ کے بعد برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کر کے تاریخ رقم کر دی۔جمعہ کو برطانیہ میں ہونے والے یورپی یونین سے علیحدگی کے ریفرنڈم کے نتائج سامنے آنے کے بعد وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے لندن میں 10 ڈاوٴئنگ سٹریٹ پر ایک پریس کانفرنس میں ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ وہ اکتوبر میں اپنے عہدے سے الگ ہو جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے عوام کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں، ملک کا 6 سال تک وزیراعظم رہنے پر فخر ہے، ملک کو نئے وزیراعظم کی ضرورت ہے اور اکتوبر میں برطانوی قوم کو اب نیا لیڈر منتخب کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تاریخی ریفرنڈم کے نتائج کے مطابق 52 فیصد عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی ہونے کے حق میں جبکہ 48 فیصد نے یونین کا حصہ رہنے کے حق میں ووٹ دیا ہے۔

(جاری ہے)

اس نتیجے کی صورت میں برطانیہ یورپی یونین کو الوداع کہنے والا پہلا ملک بن جائے گا تاہم علیحدگی کے حق میں ووٹ کا مطلب برطانیہ کا یورپی یونین سے فوری اخراج نہیں ہے۔ اس عمل میں کم از کم دو برس کا عرصہ لگ سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پیر کے روز کابینہ کی میٹنگ ہوگی جس میں یورپی یونین سے علیحدگی کے عوامی فیصلے پر مشاورت ہوگی جس کے بعد یورپی یونین کے عہدیداروں سے ملاقات میں انہیں برطانوی عوام کے فیصلے سے آگاہ کیا جائے گا۔

وزیرِاعظم کیمرون نے کہا کہ وہ آنے والے ہفتوں میں ملک کو سنبھالنے کے لیے کام کریں گے لیکن اْن کے خیال میں یورپی یونین کے ساتھ مذاکرات کا عمل ایک نئے کپتان کی سربراہی میں شروع ہونا چاہیے۔اْن کا کہنا تھا کہ ملک کو اب ایک نئے وزیراعظم کی ضرورت ہے جو یورپی یونین سے اخراج کے عمل کا آغاز کرے اور اْسے پایہ تکمیل تک پہنچائے۔ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ اگرچہ یورپی یونین سے علیحدگی وہ راستہ نہیں جس پر وہ چلنے کا مشورہ دیتے لیکن وہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ برطانیہ یورپی یونین کے بغیر رہ سکتا ہے۔

کیمرون کا کہنا تھا کہ یہ اْن کے لیے مناسب نہیں کہ وہ اْن حالات میں ملک کی قیادت کریں جبکہ عوام نے اْس موقف کی حمایت کی ہے جس کے وہ مخالف تھے۔انھوں نے کہا کہ برطانیہ کے عوام کی خواہشات کا احترام کیا جانا چاہیے اور ملک کو ایک مضبوط اور پرعزم قیادت کی ضرورت ہے جو یورپ میں برطانیہ کے آنے والے کردار پر بات کرے۔ڈیوڈ کیمرون کا کہنا تھا کہ ہمیں اب یورپی یونین سے بات چیت کے لیے تیار ہونا ہو گا جس کے لیے سکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی ایئر لینڈ کی حکومتوں کو مکمل ساتھ دینا ہو گا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ برطانیہ کے تمام حصوں کے مفادات کا تحفظ ہو۔

برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ سیاسی عدم استحکام سے بچنے کے لیے استعفیٰ کا فیصلہ کیاہے ،پالیمانی نظام حکومت میں ہی برطانیہ کی بقا ہے، ریفرینڈم کا انعقاد پارلیمانی جمہوریت کا حصہ ہے اور عوام کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت نے اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کیا،علیحدگی کے فیصلے کے باوجود معروضی حالات میں تبدیلی نہیں ہو گی،برطانوعی عوام کی رائے کا اخترام کرتے ہوئے وزارت عظمیٰ سے علیحدگی کا اعلان کیا ہے۔

ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ میں آئندہ ہفتوں اور مہینوں میں ملک کے لیے جو ہوسکا بطور وزیراعظم کروں گا، یورپی یونین سے انخلا کے بعد بھی یورپی باشندے برطانیہ میں رہ سکیں گے۔یورپی یونین کے علیحدگی کے عوامی فیصلے پر بات کرتے ہوئے ڈیوڈ کیمرون کا کہنا تھا کہ ریفرنڈم کی شکل میں سامنے آنے والے عوامی فیصلے سے معروضی حالات تبدیل نہیں ہوں گے تاہم برطانیہ کی معیشت مضبوط ہے۔واضح رہے کہ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون برطانیہ کا یورپی یونین میں رہنے کے حق میں تھے تاہم عوام کی جانب سے یورپی یونین سے علیحدگی کے فیصلے کے بعد ان پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کے لئے خاصہ دباوٴ تھا۔

متعلقہ عنوان :