بلوچستان کا 2 کھرب89 ارب روپے کابجٹ پیش ،36 ارب خسارہ

تعلیم 28ارب،صحت 17ارب،امن وامان کیلئے 30ارب مختص 3 ہزار220 نئی آسامیاں، تنخواہوں میں10 فیصد اضافے کااعلان بجٹ میں218 ار ب روپے کے غیر ترقیاتی،71 ارب سے زائد کے ترقیاتی اخراجات شامل، کوئٹہ کی خوبصورتی وترقیاتی کاموں کی مد میں 5ارب روپے مختص،کوئٹہ ماس ٹرانزٹ ٹرام اسکیم کیلئے 2ارب روپے فراہم کئے جائینگے بے روزگار نوجوانوں کو ملازمت کے مواقع فراہم کئے جا رہے ہیں کرپشن کے خلاف منظم جدوجہد تیز کر دی گئی ہے بجلی کے بحران پر قا بو پا نے کیلئے شمسی توانائی اور دیگر منصوبوں پر کام تیزی سے جاری ہے،ثناء اللہ زہری

پیر 20 جون 2016 09:53

کوئٹہ ( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔20جون۔2016ء ) بلوچستان کا آئندہ مالی سال2016-17 کا2 کھرب89 ارب روپے سے زائد بجٹ پیش کر دیا گیا بجٹ میں 36 ارب روپے سے زائد کا ریکارڈ خسارہ ظاہر کیا گیا۔آئندہ مالی سال کے بجٹ میں218 ار ب روپے سے زائد غیر ترقیاتی جبکہ71 ارب روپے سے زائد ترقیاتی اخراجات شامل ہے ،تعلیم کیلئے 28ارب 93کروڑ22لاکھ روپے ،صحت کیلئے 17ارب 36کروڑ 77لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں جبکہ امن وامان کی بحالی کیلئے 30ارب 25کروڑروپے مختص کئے گئے ہیں جو موجودہ مالی سال کے مقابلے میں 12فیصد زیادہ ہے ،بجٹ میں 3 ہزار220 نئے آسامیاں پیدا کر نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں10 فیصد اضافے کااعلان کم سے کم اجرت 13سے بڑھا کر14ہزار رروپے کردی گئی کوئٹہ کو فراہمی آب سکیم کے تحت پٹ فیڈر کینال سے کوئٹہ شہر کو پانی کی فراہمی کیلئے کوئٹہ واٹرسپلائی پروجیکٹ کیلئے 40ارب روپے مختص کرنے کافیصلہ کاگیاہے اس حوالے سے 10ارب روپے آنیوالے مالی سال 2016-17کیلئے مختص کئے گئے ہیں۔

(جاری ہے)

صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کی خوبصورتی وترقیاتی کاموں کی مد میں 5ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ،حکومت چین کے تعاون سے کوئٹہ ماس ٹرانزٹ ٹرام اسکیم کیلئے 2ارب روپے فراہم کئے جائینگے ۔کوئٹہ گرین بس پروجیکٹ کیلئے 1ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ،تمام ڈویژنل ہیڈکوارٹرز بشمول گوادر شہر کی اپ گریڈیشن اور خوبصورتی کیلئے 3ارب روپے فراہم کئے جائیں گے ،سٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں میں بہتری لانے کیلئے ایک ارب اور 50کروڑروپے رکھے گئے ہیں ،لوکل کونسلز کیلئے ترقیاتی گرانٹ کی مد میں 5ارب روپے مختص کئے گئے ہیں،اس سال صوبے کے قابل طلباء وطالبات کو لیپ ٹاپ دئیے جائیں گے جس کیلئے 50کروڑروپے مختص کئے گئے ہیں جبکہ جاری اسکیموں کیلئے 10ارب روپے مختص کئے جارہے ہیں۔

بلوچستان اسمبلی کااجلاس اسپیکر راحیلہ حمیددرانی کی صدارت میں شروع ہوا۔اجلاس میں آئندہ مالی سال 2016-17کا بجٹ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہاکہ موجودہ مخلوط حکومت کے اپنے طے شدہ رہنماء اصولوں کی وجہ سے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں صوبے میں ترقی کا عمل تیز کر نے کی خاطر امن وامان کی بہتری اور سنگین جرائم میں کمی کرکے سازگار معاشی ماحول فراہم کرنے کیلئے خلوص نیت سے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔

تعلیم، صحت اور پانی کی فراہمی کو بنیادی اہمیت دی گئی ہیں۔غیر ترقیاتی اخراجات کم کر کے وسائل کو ترقیاتی سر گرمیوں کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔بے روزگار نوجوانوں کو ملازمت کے مواقع فراہم کئے جا رہے ہیں کرپشن کے خلاف منظم جدوجہد تیز کر دی گئی ہے بجلی کے بحران پر قا بو پا نے کیلئے شمسی توانائی اور دیگر منصوبوں پر کام تیزی سے جاری ہے موجود صنعتی اداروں کی فعالیت اور ان سے منسلک ملازمین کی فلاح وبہبود پر درست سمت میں کام شروع کر دیا گیا ہیخواتین کے معاشی وسیاسی حقوق کا تحفظ اور تمام امتیازی قوانین کا خاتمہ ہماری اولین تر جیح ہے اقلیتوں کے بنیادی وآئینی حقوق کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے چین پاکستان اقتصادی راہداری کے عظیم منصوبے پر کام جاری ہے۔

ہمارا صوبہ زمانہ قدیم سے ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے صوبہ بلوچستان ملک کے44 فیصد رقبے پر محیط ہے جبکہ اس کی آبادی95 لاکھ سے زائد ہے اور محل وقوع کے لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے مختلف جنگلی حیات کے حوالے سے یہ پاکستان کا انتہائی اہم علاقہ ہے دنیا میں صنوبر کے سب سے بڑے جنگلات یہاں پائے جا تے ہیں ہمیں قدرت نے775 کلو میٹر ساحلی پٹی سے نوازا ہے ہمارے ساحلی علاقے معاشی لحاظ سے اہمیت کے حامل ہے یہاں زیر زمین بے پناہ معدنی ذخائر موجود ہ ے جنہیں دریافت کرنے اور استعمال میں لانے کی ضرورت ہے ہمارے پاس سونا، چاندی اور تانبے کے علاوہ قدرتی گیس، تین اور کوئلے کے وسیع ذخائر ہیں گیس1952 میں سب سے پہلے بلوچستان میں دریافت ہوئی جس نے پورے ملک کی معاشی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے وسطی ایشیاء سے لے کر خلیج فارس تک پھیلے ہوئے ممالک کی وجہ سے صوبہ بلوچستان پاکستان کی تجارتی سر گرمیوں اور معاشی استحکام کا سنگ میل ہے۔

پاکستان کی آئینی تاریخ میں پہلی مر تبہ اٹھارویں ترمیم کی شکل میں صوبوں کے اختیارات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا جو صوبائی خود مختاری کی جانب ایک مثبت قدم ہے اس آئینی تبدیلی کے بعد ہماری معیشت کو نہ صرف تقویت مل رہی ہے بلکہ یہاں بیرونی سر مایہ کاری میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جس سے یقینی طور پر بے روزگاری میں کمی واقع ہو گی۔موجودہ بجٹ ان مقاصد کو پیش نظر رکھ کر بنایا گیا ہے جس سے عام آدمی کے مسائل کو حل کیا جا سکے آئندہ بجٹ کی خاص بات صوبے کے ترقیاتی مقاصد کو حاصل کر نا ہے اور یہی وہ بنیاد ہے جس کوپیش نظر رکھ کر یہ بجٹ پیش کیا جا رہا ہے اور اگر ہم ان مقاصد کو حاصل کر لیتے ہیں تو ہمارا مستقبل ترقی یافتہ ، خود انحصار، خوشحال اور محفوظ ہو گا ہمارے اس تصور میں جناب وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف کی گہری دلچسپی کی بنیادی حیثیت حاصل ہے کیونکہ صوبے کی ترقی یہاں کے لو گوں کی خوشحال اور خطے کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر یہاں اقتصادی سر گرمیوں کا فروغ ان کی ترجیحات میں شامل رہا ہے۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری ہماری سیاسی قیادت اور چینی قیادت کا ویژن ہے جس کے تحت چین اور پاکستان کے درمیان تاریخی رابطوں کو بحال کر نا مزید بہتر طور پر تعمیر کرنا اور آخر کار اس کو وسط ایشیاء تک بڑھایا جا تا ہے ہم اس کلیدی منصوبے پر فخر محسوس کر تے ہیں جو نہ صرف پاکستانی بلکہ ہمارے صوبے کی تقدیر بدل دے گا۔یہ کوریڈور گیم چینجر کی حچیت رکھتا ہے وزیراعظم محمد نواز شریف تمام سیاسی جماعتوں کے اکابرین کو منصوبے کے حوالے سے اعتماد میں لے رہے ہیں ہم اس منصوبے کے بیرونی مخالفین کو یہ بتانا چا ہتے ہیں کہ وہ اس قومی اتفاق کے منصوبے پر نہ بے جا اعتراض اٹھائیں اور نہ ہی اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کریں کیونکہ ہم اس طرح کی کسی بھی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دینگے۔

آنے والے دنوں میں گوادر پاکستان کی معاشی ترقی میں انتہائی اہم کردار ادا کرے گا اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت اس علاقے کی ترقی کیلئے بہت سنجیدہ ہے ہم وفاقی حکومت کے تعاون سے اپنے وسائل کا ایک خاطر خواہ حصہ بہت سے ایسے پروجیکٹ کیلئے مختص کر رہے ہیں جو گوادر کی ترقی کیلئے اہم ہیں ان میں چند پروجیکٹ درج ذیل ہے :۔گوادر میں پانی کی فرہامی کی سہولیات کیلئے آئندہ مالی سال کیلئے بجٹ میں وفاقی حکومت کے تعاون سے خطیر رقم خرچ کی جائیگی ،بلوچستان میں کی جانیوالی سرمایہ کاری سے بے پناہ فوائد حاصل ہونگے مستقبل میں پاکستان کی زرعی اور تجارتی ترقی میں بلوچستان کا بڑا حصہ ہو گا بلوچستان میں بیرونی سرمایہ کاری بڑھانے کیلئے بلوچستان انویسٹمنٹ بورڈ تشکیل دے دیا گیا ہے اسی طرح معدنی پیدوار اور تجارتی سر گرمیوں کا بڑا مرکز بھی آئندہ بلوچستان بنے گا۔

ہماری حکومت کی مسلسل کاوشوں کے نتیجے میں بلوچستان کے ترقیاتی عمل عمل میں وفاقی حوکمت کا بھر پور تعاون حاصل ہو رہا ہے اور مختلف شعبوں میں وفاقی اداروں نے فعالیت کا مظاہرہ کیا وفاقی پی ایس ڈی پی صوبے کے ترقیاتی اسکیموں کیلئے جو فنڈز مختص کئے ہیں وہ ماضی میں اکثر نہیں ملتے تھے لیکن اس سال وفاقی حکومت نے تمام وفاقی منصوبوں پر فنڈز مکمل اور بروقت جاری کئے جس کے باعث ترقیاتی عمل کو کسی تعطل کے بغیر جاری رکھنا ممکن ہوا۔

ہماری مخلوط حکومت نے صوبے کے ترقی کیلئے غیر معمولی اور جرت مندانہ اقدامات کئے ہیں اس سے نہ صرف وفاقی بلکہ بیرونی اداروں کے اعتماد میں بھی خاطر خوا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کی وجہ سے گزشتہ تین سالوں میں بیرونی امداد بڑھ کر80 ملین ڈالر تک پہنچ گئی ہے یہ امداد خصوصاً صوبے میں گورننس، انفراسٹرکچر اور نوجوانوں کی بہتری کیلئے استعمال میں لائی جا رہی ہے اس کیلئے میری حکومت بیرونی اداروں کی بے حد مشکور ہیں۔

اب میں آپ کی خدمت سے اس معزز جمہوری ایوان کے سامنے رواں مالی سال کے دوران صوبے میں حکومت کی کارکردگی بیان کر نا چا ہونگا جاری مالی سال2015-16 کے بجٹ کا ابتدائی تخمینہ(243.528 ارب روپے ) تھا نظر ثانی شدہ بجٹ برائے سال2016-17 کا تخمینہ(253.338 ارب روپے ) ہو گیا 2015-16 کے اخراجات جاریہ کا تخمینہ (189.023 ارب روپے ) تھا جو نظر ثانی شدہ تخمینے میں کم ہو کر(181.853 ارب روپے)رہ گیا۔

پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام میں مالی سال 2015-16 میں پی ایس ڈی پی کا حجم54 ارب روپے سے زائد تھا اس میں940 جاری اسکیمیں جبکہ 310 نئے اسکیمیں شامل تھے 2015-16 میں پی ایس ڈی پی پر نظر ثانی کے بعد اس کا حجم 51 ارب روپے سے زائد ہو گیا ہے نظرثانی کے بعد 938 جاری اسکیموں کیلئے 22 ارب روپے سے زائد اور 1349 نئے اسکیموں کیلئے28 ارب روپے سے زائد رقم مختص کئے گئے ہیں وفاقی حکومت کی پی ایس ڈی پی سے صوبائی محکموں کی توسط سے عملدرآمد ہونیوالی اسکیموں اور صوبائی ترقیاتی پروگرام کے ذریعے چلنے والے اسکیموں کی فنڈز کی ری ارتھائزیشن کی مد میں 19 ارب سے ہے بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال بہتر بنا نے اور ماضی میں مزدوروں کے قتل عام کوئٹہ شہر میں دہشتگردی وٹارگٹ کلنگ اور قومی شاہراہوں سے مسافروں اغواء اور قتل جیسے واقعات نہایت افسوسناک اور قابل مذمت رہے ہیں حکومت ان واقعات میں ملوث عناصر کو پکڑ نے اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے تمام ممکنہ اقدامات کر رہی ہے امن وامان کو قائم رکھنے میں افواج پاکستان ، پولیس ، لیویز اور ایف سی کا کردار قابل تحسین ہے قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور فورسز کو جدید بنا نے کے علاوہ دیگر اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں تاکہ صوبے میں مثالی امن وبھائی چارے کی فضاء دوبارہ فعال ہو سکے اس سلسلے میں ایک مربوط پالیسی کے تحت پسماندگان کو نقد مالی معاونت فوری تنخواہ ، صحت ، تعلیم اور رہائشی کی سہولتیں بھی مہیا کی گئی ہے کریمنل جسٹس سسٹم کو مزید بہتر کر نے اور جرائم پر قانونی طریقے سے قابو پا نے کیلئے خاطر خواہ قانون سازی کی گئی ہے بلوچستان میں ہوٹلوں اور کرایہ کے مکانات پر سیکورٹی ایکٹ2015 نافذ کر دیا گیا ہے وال چاکنگ پر نظر رکھنے کیلئے بلوچستان ترمیمی بل 2015 صوبائی اسمبلی سے منظور کروا گیا ہے آئندہ مالی سال2016-17 میں امن وامان کے لئے غیر ترقیاتی بجٹ میں30 ارب 26 کروڑ روپے مختص کئے گئے جو موجودہ مالی سال کے مقابلے میں تقریبا12 فیصد زیادہ ہے ٹریننگ میں مزید بہتری تفتیشی کور س کا آغاز کوئٹہ میں تھانوں اور چوکیوں کی تعداد میں اضافہ نوجوانوں کی ویلفیئر ضروری قوانین کی منظوری پولیس اور لیویز فورس کو موجودہ حالات اور چیلنجز سے نمٹنے کیلئے جدید خطوط پر منظم کیا جا رہا ہے اس سلسلے میں 13 کروڑ روپے کی خطیر رقم سے جدید اور معیاری اسلحہ فراہم کر نے کا بندوبست کیا جا رہا ہے اور دیگر ضروری آلات فراہم کر نے کی غرض سے 75 کروڑ28 لاکھ روپے مختص کئے گئے دہشتگردی اور دیگر جرائم کے خاتمے کیلئے پولیس کے نوجوانون کی اہلیت کو فوج سے ٹریننگ کے ذریعے مزید موثر بنا یا جا رہا ہے میرٹ پر پولیس افسران کی تقرریاں اور ترقیاں پولیس میں سیاسی عدم مداخلت اور انٹیلی جنس فیوژن سیل کی مزید بہتر کارکردگی ہماری تر جیحات میں شامل ہے انسداد دہشتگرد فورس کو مزید موثر بنا نے کیلئے کوئٹہ میں این ٹی ایف ٹریننگ سینٹر کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے اور اب تک1500 جوان فارغ ہو چکے ہیں اس کے علاوہ خصوصی انسداد دہشتگردی فورس کا قیام عمل میں لایا جائیگا حکومت بلوچستان نے اپنے پا نچ سالہ ایجوکیشن سیکٹر پلان مرتب کیا ہے جس کے تحت نئے سکولوں کا قیام موجودہ سکولوں کی اپ گریڈیشن اور بچوں کے کلاسز کا اجراء کیا جائیگا اس کے ساتھ ساتھ تعلیمی معیار کو بہتر بنا نے کیلئے نقل کی روجحان کا مکمل خاتمہ جیسے مہم کا آغاز کیا گیا ہے جس کے تعلیمی نظام پر نہایت مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں بلوچستان ایجو کیشن انڈوومنٹ فنڈ کو پانچ ارب روپے سے بڑھا کر6 ارب روپے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے آئندہ مال سال2016-17 بلوچستان کے تمام اضلاع کے پرائمری سے لے کر کالج ویونیورسٹی تک کے 14 ہزار بلا صلاحیت ہونہار وپوزیشن ہولڈر طلباء وطالبات کو ملکی وغیر ملکی مستند تعلیمی اداروں کیلئے وظائف دیئے جائینگے 2016-17میں تعلیم کیلئے28 ارب92 کروڑ 22 لاکھ روپے مختص کئے گئے جو رواں مالی سال کے مقابلے میں 15 فیصد زیادہ ہے صوبے کے تمام سکولوں میں فرنیچر ، لکھائی پڑھائی کا سامان ، سائنسی آلات ٹاٹ اور کھیلوں کے سامان کی کمی دور کر نے کیلئے 69 کروڑ 14 لاکھ روپے رکھے گئے ہیں اور80 پرائمری سکولوں کو مڈل کا درجہ دیا جائیگا جبکہ70 مڈل سکولوں کو ہائی کا درجہ دینے کیلئے منصوبہ کی گئی ہے ورلڈ بین کی تعاون سے گلوبل پارٹنر شپ فار ایجو کیشن کا3 سالہ منصوبہ منظور کر لیا جس کے تحت 725 نئے پرائمری سکولوں کا قیام موجودہ سکولوں کو بلڈنگ کی فراہمی اور خواتین اساتذہ کی تقرری عمل میں لائی جائیگی جسٹس افسرز کو سپروائزری اسٹاف کیلئے 400 موٹر سائیکلیں اور50 سے زائد گاڑیاں فراہم کی جا رہی ہے تاکہ سکولوں کی نگرانی کی نظام کو بہتر بنا کر سکولوں کی بندش اور اساتذہ کی غیر حاضری سے روکھا جا سکے ٹیکسٹ بک کی چھپائی اور سپلائی کیلئے45 کروڑ روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی تاکہ ہر بچے کو مفت کتابیں کی فراہمی یقینی بنائے جا سکے آنیوالے مالی سال2016-17میں ایک ہزار سکولوں کیلئے ٹرانسپورٹ کی فراہمی بھی تجویز کی گئی صوبے میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کیلئے تربت یونیورسٹی لورالائی یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تربت یونیورسٹی اور لو رالائی میں درس وتدریس کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اس کے علاوہ بلوچستان یونیورسٹی کیمپس خضدار کو ایک الگ یونیورسٹی شہید سکندر زہری یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا ہے جس پر اگلے مالی سال میں ترقیاتی کام کا آغاز کر دیا جائیگا اور اس یونیورسٹی کیلئے پہلے ہی سے2848 ملین روپے کی خطیر رقم مختص کر دی گئی صوبے میں اس وقت چھ کیڈٹ کالجز قائم ہیں جن میں کیڈٹ کالج مستونگ، پشین، جعفرآباد، قلعہ سیف اللہ، پنجگور اور کوہلو شامل ہیں ان کالجز میں تعلیمی سر گرمیاں جاری ہے جبکہ کیڈ کالج نوشکی میں اسی تعلیمی سال سر گرمیوں کا اغاز کر دیا جائیگا اس طرح اسی مالی سال سے کیڈٹ کالج قلعہ عبداللہ اور خاران پر بھی تعمیراتی کام کا آغاز کر دیا گیا ہے اس وقت صوبے میں لڑکوں اور لڑکیوں کیلئے105 انٹری ڈگری اور پانچ ٹیکنیکل کالجز اپنی تعلیمی خدمات سرانجام دے رہے ہیں جس میں تقریبا70 ہزار طلباء وطالبات زیر تعلیم ہے اس وقت کالجز سائیڈ کی کل40 نئی اور55 جاری اسکیموں پر ترقیاتی کام جاری ہے یہ ترقیاتی اسکیمات صوبے میں کالجوں، تیکنیکی اداروں، ریذیڈنشل کالجوں اور یونیورسٹیوں کے جال بچانے میں معاون موددگار ثابت ہونگے اگلے سال ضلع کوئٹہ میں نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنا لوجی کے کیمپس کے قیام کیلئے ترقیاتی کام آغاز کر دیا جائیگا این یو ایس ٹی کے کیمپس کے قیام کیلئے زمین خریدنے کی غرض سے40 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں اس طرح جاری مال سال کے دوران صوبے کے کالجوں کو فرنیچر کی فراہمی کیلئے10 کروڑ روپے فراہم کئے گئے ہیں تاکہ ان کالجوں میں تعلیمی سر گرمیاں بخوبی انجام پا سک یں جاری مال سال کے دوران صوبے کے طلباء وطالبات کو تعلیمی اداروں تک آسانی رسائی دینے کیلئے تقریبا11 کروڑ روپے کی رقم سے دور دراز اضلاع کے کالجوں کیلئے 13 کوسٹرز اور4 بسیں خرید ی گئیں اس مقصد کیلئے نئے مالی سال میں بھی11 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں صوبائی حکومت اور پنجاب حکومت کی مشترکہ سکالر شپ اسکیم کے تحت صوبے کے400 طلباء پنجاب کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں آئندہ مالی سال شعبہ صحت کیلئے غیرترقیاتی بجٹ کی مد میں17 ارب 36 کروڑ77 لاکھ روپے مختص کئے گئے جو پچھلے سال کے مقابلے میں 12 فیصد اضافہ ہے رواں مالی سال وزیراعظم قومی صحت پروگرام کا آغاز بلوچستان سے کر دی اگیا ہے اس پروگرام کے تحت غریب اور حقدار شہریوں کو مفت علاج فراہم کیا جائیگا جاری مالی سال کے دوران زچہ وبچہ کی صحت کے پروگرام کے تحت زچگی سے متعلق ایمر جنسی اور دوسرے علاج کی سہولیات کو ضلعی ہسپتال میں فعال کر دیا گیا ہے جس کی معالیت1 ارب 68 کروڑ روپے ہیں اسی پروگرام کے تحت جاری مالی سال کے دوران ایمبولینس رورل ہیلتھ سینٹر کی سطح تک دے دی گئیں2016-17 میں مزید ایمبولینسیں فراہم کی جائیگی صوبے میں غذائیت کے پروگرام کے تحت نیوٹریشن پالیسی کی منظوری دی گئی ہے اس مقصد کیلئے ایک پی سی I بھی منظور کیا جا چکا ہے جس کی مالیت تقریبا1492 ملین روپے ہیں حفظاتی ٹیکو کا پروگرام اے پی آئی کے تحت کوریج کو بہتر بن انے کیلئے70 نئے سینٹرز کھولے جائینگے اس کیلئے نیا پی سی I جس کی مالیت تقریبا8000 ملین روپے ہے منطوری کیلئے زیر غور ہے ڈاکٹروں کی کمی پورا کر نے کیلئے تین میڈیکل کالجز خضدار، لورالائی اور تربت میں قائم کئے جا رہے ہیں بی ایم سی ہسپتال کوئٹہ کو ایم آر آئی سسٹم جو گزشتہ دو سال غیر فعال تھا اس کو بھی فعال کر دیا گیا ہے اور دیگر جدید مشینری فراہم کی جا رہی ہے طب کے شعبے میں اعلیٰ تعلیم ہمیشہ سے ترجیح رہی ہے اس سلسلے میں کوئٹہ پوسٹ گریجویٹ میڈیکل ادارہ قائم کیا گیا ہے ادارہ برائے نفسیات کا قیام عمل لا یاگیا آئندہ مالی سال 2016-17 میں تقریبا1 ارب57 کروڑ 96 لاکھ روپے کی مفت ادویات کی دی جائیگی بلوچستان میں واحد ٹراما سینٹر جوکہ سول ہسپتال میں قائم ہے اس کو آلات اور دیگر ضروری کی فراہمی سے فعال کیا جا رہا ہے اس کے علاوہ صوبے میں پانچ مزید ٹراما سینٹر ز کی تجویز غور ہے حکومت پنجاب کے تعاون سے ادارہ برائے امراض قلب کا قیام عمل میں لایا جائیگا۔

بلوچستان میں گردے کی امراض کے حوالے سے بلوچستان انسٹیٹیوٹ آف نیفرالوجی کو فعال بنادیا گیا ہے ۔ ڈاکٹروں کی رہائش کے مسائل کو دور کرنے کیلئے پہلے مرحلے میں 8 ڈی ایچ کیوز میں بیچلر ہاسٹل بنائے جارہے ہیں اور دوسرے مرحلے میں 8 مزید ڈی ایچ کیوز ہاسٹل بنائے جائیں گے ۔ آنے والی مالی سال 2016-17 میں بلڈ کینسر مریضوں کے لئے 4 کرور 80 لاکھ روپے رکھے گئے ہیں، ایکسرے اور بیڈنگ کے بجٹ میں پچاس فیصد اضافہ کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری معیشت میں زراعت کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے صوبے کی آبادی تقریباً 65 فیصد بلواسطہ یا بلاواسطہ زراعت کے شعبے سے وابستہ ہے ۔ قدرت نے بلوچستان کو مختلف اقدام کے پھل ، سبزیوں اوراجناس کی کاشت کے لئے مناسب زرعی ماحول سے نوازا ہے۔ ہم معیاری پھل سیب، انگور ، کھجور اور خوبانی وغیرہ میں خصوصی شہرت رکھتے مگر اس اہم پیداوار کو صحیح اور محفوظ حالت میں مارکیٹ تک پہنچانے کے لئے انتظام نہ ہونے کی وجہ سے ہمارا کسان اپنی محنت کا صحیح معاوضہ حاصل نہیں کرپارہا ۔

آنے والے مالی سال 2016-17 میں محکمہ زراعت کے لئے تقریباً ارب 40 کروڑ 20 لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں جو موجودہ مالی سال کے مقابے میں تقریباً9 فیصد زیادہ ہے ، کچھی کینال پر وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کے تعاون سے سوئی کے علاقے میں 57 ہزار ایکڑ زمین زیر کاشت لائی جائے گی جو ہماری مخلوط حکومت کا ایک بڑا کارنامہ ہوگا اس میں اگلے مالی سال انشاء اللہ پانی کی فراہمی شروع ہوجائے گی ۔

قلعہ سیف اللہ اور اوتھل میں مارکیٹ اسکوائرز کو 10 کروڑ روپے کی لاگت سے جلد ہی مکمل کرلیا جائے گا ، 18 مختلف اضلاع میں تقریباً 28 کروڑ اور 80 لاکھ روپے کی لاگت سے سرکاری زرعی فارمز کو مکمل طورپر فعال بنایا جارہا ہے ۔ کم پانی لینے والے فصلوں کو متعارف کروایا جارہا ہے جس پر لاگت کا تخمینہ تقریباً 20 کروڑ روپے ہیں ۔ زرعی ٹریننگ ادارے کا قیام 50 کروڑ روپے کی لاگت س ے لایا جارہا ہے ۔

11 کروڑ روپے کی لاگت سے 3 زرعی ورک شاپس بمقام پشین ، سبی اور دالبندین کی تجویز زیر غور ہے ۔ انہوں نے کہاکہ معیاری پودوں کی فراہمی کی غرض سے ٹشو کلچر کی ٹیکنالوجی متعارف کرانے کے لئے زرعی شعبہ کے تحٹ تقریباً50 ملین روپے کی لاگت سے ایک اہم منصوبے پر کام جاری ہے ۔ مکران ڈویژن میں 2 لاکھ ٹن کے قریب کھجور پیدا ہوتی ہے کھجور کی پیکنگ و مارکیٹنگ کے لئے تربت شہر میں ایک جدید مارکیٹ اسکوائر بنانے کی تجویز پر کام ہورہا ہے ۔

اگلے مالی سال کے دوران بلڈوزروں کی پچاس ہزار گھنٹے ضرورت مند زمینداروں میں تقسیم کئے جائیں گے تاکہ مزید رقبہ زیر کاشت لایا جاسکے ۔ آنے والے مالی سال 2016-17میں محکمہ لائیواسٹاک کے لئے تقریباً 3 ارب 10 کروڑ اور 50 لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں جو موجودہ مالی سال کے مقابلے میں تقریباً 20 فیصد زیادہ ہے ۔ نئے مالی سال کے دوران جانوروں کی مختلف بیماریوں کے علاج کے لئے 2 کروڑ اور 85 لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں۔

صوبے کے گلہ بانوں کے لئے مقابلے کی بنیاد پر ہر ضلع میں انعامی پیکج کے لئے اگلے مالی سال میں خطیر رقم مختص کی جاریہ ہے اس رقم سے ہر ضلع میں اول ، دوئم اور سوئم آنے والے گلہ بانوں کو انعامات دیئے جائیں گے ۔اس وقت امور حیوانات کے 7 بڑے منصوبوں پر کام جاری ہے جس پر لاگت کا تخمینہ تقریباً 61 کروڑ اور 40 لاکھ روپے ہے ۔ صوبے کے 20 مختلف اضلاع میں 10 کروڑ اور 80 لاکھ روپے کی لاگت سے ویٹرنری سروسز فراہم کی جائی ں گے ۔

حکومت بلوچستان نے مالداروں تک صحیح منافع پہنچانے کے لئے خضدار ، دکی ، ژوب، سبی ، موسیٰ خیل ، لورالائی اور نوشکی میں مال منڈیاں قائم کرنے کے لئے خطیر رقم مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت غیر قانونی شکار اور جالوں کے استعمال پر مکمل پابندی لگانے اور مقامی ماہی گیروں کے حالت زار اور کاروبار کو بہتر بنانے کے لئے درجہ ذیل عملی اقدامات اٹھانے میں ہر طرح سے سنجیدہ ہے ۔

آنے والے مالی سال 2016-17 میں محکمہ ماہی گیری کے لئے تقریباً 83 کروڑ 97لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں جو موجودہ مالی سال کے مقابلے میں تقریباً35 فیصد زیادہ ہے ۔ آنے والے مالی سال میں حقدار ماہی گیروں کو بلا سود قرضے دیئے جائیں گے جس پر ایک ارب روپے لاگت کا تخمینہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پسنی ہاربر اتھارٹی کو دوبارہ فعال کردیا گیا ہے جس سے ہزاروں ماہی گیر مستفید ہوں گے ۔

غیر قانونی جالوں کو روکنے کے لئے رواں مالی سال 10 کروڑ 80 لاکھ روپے کی لاگت سے وا کینٹ سے جدید مشینری حاصل کرلی گئی ہے ۔ اسی طرح اقواقم متحدہ کی تنظیم بین الاقوامی فنڈ برائے زرعی ترقی ایفاد (IFAD ) کی مدد سے ہماری ساحلی پٹی کے دونوں ضلعوں گوادر اور لسبیلہ میں 3 ارب روپے کی خطیر رقم سے ماہی گیرو ں کو کوسٹ ٹو مارکیٹ روڈ فراہم کرنے کے منصوبے کو مقررہ وقت سے پہلے کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچایا جارہا ہے ۔

حب ڈیم میں فش ہیچری کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے ۔ا نہوں نے کہا کہ جعفرآباد اور صحبت پور میں جدید فش فارمز بنائے جائیں گے آنے والے مالی سال 2016-17میں پسنی میں ریسرچ سینٹر کا قیام عمل میں لایا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں 6 میونسپل کمیٹیوں کو کارپوریشنز کا درجہ دے دیا گیا ہے جن میں ایک مربوط پروگرام کے تحت ترقیاتی منصوبوں کی مرحلہ وار تکمیل کی جائے گی ۔

اس کے علاوہ دیہی علاقوں میں بھی بنیای سہولیات فراہم کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں گے ۔اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے مخلوط حکومت کا عزم ہے کہ اس محکمے کے تمام ضلعی دفاتر کو بلا تاخیر فعال کیا جائے ۔ وزیراعلی بلوچستا ن کا کہنا تھا کہ کوئٹہ ہم سب کا شہر ہے اور بلوچستا ن کے گلدستہ کا ہر پھول یہاں اپنی بہار دکھا رہا ہے اس شہر میں بلوچ ، پشتون ، ہزار ہ ، آبادکار موجود ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہاں ٹریفک نظام ناقص ہے نکاسی آب کا کوئی موثر انتظام نہیں ، صفائی کی صورتحال اور سڑکوں ک یحالت انتہائی خستہ ہے ماضی کے لٹل پیرس کی روایتی حسن کی بحالی اور صوبائی دارالحکومت کے شہریوں کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے مسئلے پر سب کو توجہ دینی چاہیے کوئٹہ سے اس ایوان کے 6 اراکین کے ساتھ ساتھ پورے ایوان میں موجود تمام معزز اراکین اسمبلی کو کوئٹہ کے مسائل کے حل میں عملی تعاون کرنا چاہیے ۔

انہو ں نے کہا کہ رواں مالی سال 2016-17کے دوران لوکل کونسلز کو 50 کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈز فراہم کئے گئے ہیں اسی طرح خطیر رقم کی لاگت سے کوئٹہ شہر میں پارکنگ کی سہولیات کو بہتر بنایا جارہا ہے ۔ تمام اضلاع میں صوبائی سنیٹشن پالیسی کے تحت صحت و صفائی کے جامع پروگرام شروع کئے جائیں گے ۔ صوبے کے ہر ضلعی ہیڈ کوارٹر کے لئے آگ بجھانے والی گاڑیاں فراہم کی جارہی ہیں ۔

مرحلہ وار سب اضلاع میں لوکل گورنمنٹ اور چیئرمین ضلع کونسل کے دفاتر تعمیر کئے جارہے ہیں ۔ مرحلہ وار سب اضلاع ، میونسپل کمیٹیوں اور میونسپل کارپوریشنوں کے چیئرمینوں کو گاڑیاں دی جائیں گی اسی طرح تمام چیئرمینوں اور وائس چیئرمینوں کو لوکل گورمنٹ ایکٹ 2010 کے تحت اعزازیہ دیا جائے گا ۔ گزشتہ مالی سال کے دوران بین الاقوامی معیار کے مطابق تقریباً 9 سو کلو میٹر بلیک ٹاپ سڑکیں بنائی گئیں اور آنے والے مالی سال رواں 2016-17 کے دورا ن مزید 12 سو کلو میٹر بلیک ٹاپ سڑکوں کو ہدف رکھا گیا ہے ۔

کوئٹہ شہر کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے کم از دو فلائی اوور ناگزیر ہیں جن میں سریاب کا ایک فلائی اورر مکمل کرلیا گیا ہے اور دوسرے فلائی اوور بمقام کوئلہ پھاٹک پر تیزی سے کام جاری ہے ۔ نئے مالی سال کے دورا ن مواصلات کے شعبے کی کل 491 اسکیمات 162 نئی اور 3 سو 29 جاری اسکیمات کے لئے مجموعی طور پر تقریباً 8 ارب 75 کروڑ 83 لاکھ رروپے مختص کئے گئے ہیں ان اسکیمات کو آنے والی مالی سال 2016-17کی پی ایس ڈی پی میں شامل کردیا گیا ہے ۔

عوام کی سہولات کے غرض سے ماسٹر پلان جس کی مالیت 6 سو 26 ملین روپے ہے کے تحت سول سیکرٹریٹ کوئٹہ میں پارکنگ کمپلیکس کومکمل کرلیا گیا ہے باقی ماندہ کام آنے والی مالی سال 2016-17میں مکمل کرلیا جائے گا ۔ کوئٹہ جناح روڈ پر میوزیم اور صوبائی لائبریری کی تعمیر کی غرض سے 90ملین روپے رکھے گئے ہیں جس پر جلد کام مکمل کرلیا جائے گا ۔ نواب ثناء اللہ زہری نے کہا کہ آنے والے مالی سال 2016-17میں محکمہ معدنیات کے لئے 1 ارب روپے 63 کروڑ 58 لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں جو موجودہ مالی سال کے مقابلے میں تقریباً5 فیصد زیادہ ہے ۔

بلوچستان میں معدنی دولت پر قبضے کے غیر قانونی لیز منسوخ کرنے پر تیزی سے کام جاری ہے ۔ مائننگ انڈسٹری کی ترقی پر خاص وجہ دی جائے گی اس کی ترقی و توسیع میں جدید آلات و مشینری کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی جائے گی ۔ مائننگ کے ورکرز کو سوشل سیکورٹی اور دیگر قانونی مراعات کا حقدار بنایا جارہا ہے ۔ ریکوڈک کا بحران جس کی وجہ سے ترقیاتی کام تاخیر کا شکار ہے کو ترجیحی بنیادوں پر شفاف انداز میں حل کرلیا جائے گا ۔

ریکوڈک کیس کے لئے 50 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں اس منصوبے کو جلد شفاف طریقے سے شروع کردیا جائے گا ۔ سیندک منصوبے سے متعلق وفاق کے ساتھ بامقصد بات چیت کی جارہی ہے تاکہ پراجیکٹ کی ملکیت احسن طریقے سے صوبے کو منتقل ہوسکے اور آئندہ مالی سال سے اس منصوبے کو زیادہ منافع بخش طریقے سے شروع کردیا جائے گا ۔آنے والے مالی سال 2016-17 میں محکمہ آب پاشی کے لئے ایک ارب 82 کروڑ 35 لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں ۔

وفاقی حکومت کی تعاون سے آب پاشی کے 10 بڑے منصوبے زیر تکمیل ہیں جس پر تقریباً 42 ارب روپے خرچ آئے گا ان منصوبوں پر عمل درآمد سے زیر زمین پانی کی سطح میں بہتری آئے گی اور ہزاروں ایکڑ اراضی زیر کاشت لائی جاسکے گی ۔ علاوہ ازیں مختلف اضلاع میںآ بادی کو پینے کا صاف پانی بھی میسر ہوگا جبکہ آب پاشی کے 5 نئے بڑے منصوبے بھی وفاقی حکومت کی مالی تعاون سے مالی سال 2016-17میں 19 ارب روپے کی لاگت سے شامل کئے گئے ہیں ۔

آنے والے مالی سال 2016-17 میںآ بنوشی کے شعبے کے لئے تقریباً 3 ارب 9 کروڑ 55 لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں جو گزشتہ مالی سال 2015-16 کے مقابلے میں5 فیصد زیادہ ہے ۔ اسپیشل ترقیاتی پروگرام کے تحت 60 سے زائد پینے کی صاف پانی کے اسکیموں کو مکمل کرلیا گیا ہے ۔ چار سو سے زائد پرانے اور غیر فعال واٹر سپلائی اسکیموں کی توسیع و مرمت کرکے انہیں فعال کردیا گیا ہے ۔

جاری مالی سال 2015-16 کے دوران صوبائی واٹر سپلائی کی پالیسی اور ایکشن پلان پر کام مکمل کرلیا گیا ہے ۔ واٹر سپلائی اسکیم کچھی فیزٹو مختلف اضلاع میں6 سٹوریج ڈیموں کی تعمیر ، پچاس مزید واٹر فیلٹریشن پلاٹوں کی تنظیب پر تیزی سے کام جاری ہے ۔ پانچ سو واٹر سپلائی ٹیوب ویلوں کو سولر سسٹم پر منتقل کیا جائے گا جس پر تقریباً 2500 ملین روپے خرچہ ہوگا ۔

انہوں نے کہا کہ مخلوط صوبائی حکومت نے تاریخ میں پہلی مرتبہ صبوائی لیبر پالیسی کی منظوری دیدی ہے اور اس ضمن میں تیرہ لیبر قوانین کو صوبائی سطح پر نافذ کرنے کا کام آخری مراحل میں ہے ۔ فنی مہارت اور تیکنیکی تعلیم فراہم کرنے کے غیر غیر فعال اداروں کو نجی شعبے کے تعاون سے فعال بنایا جارہا ہے جو ہمارے بے روزگار نوجوانوں کو ہنر مند بنا کر روزگار کے قابل بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں 14 ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹر برائے مرد اور 6 ٹیکنیکل سینٹرز برائے خواتین صوبے کے مختلف اضلاع میں 18 شعبوں میں نوجوان نسل کو ٹریننگ دے رہے ہیں ۔

علاوہ ازیں 13 مختلف پسماندہ تحصیلوں میں مرکزی حکومت کے تعاون سے فنی تربیت دی جارہی ہے ۔وفاقی وزرات تحفظ خوراک اسلام آباد میں منعقدہ ایک اجلاس میں صوبہ بلوچستان کے لئے برائے مالی سال 2016-17کے لئے ایک لاکھ میٹرک ٹن گندم کی خریداری کا ہدف مقرر کیا گیا تھا اور گندم کی امدادی قیمت کو گزشتہ سال کی مقرر کردہ نرخ 13 سو روپے فی 40 کلو گرام پر برقرار رکھا گیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے اس سال گندم کی خریداری کے عمل میں تاخیر کی وجہ سے حکومت کاشتکاروں سے گندم کی خریداری نہ کرسکی جبکہ محکمہ زراعت کے ایک رپورٹ کے مطابق اس سال بلوچستان میں 8.6 ملین میٹرک ٹن یعنی 86 لاکھ بوری گندم کاشت ہوئی ہے گندم کی خریداری نہ ہونے کی سبب بلوچستان کے کاشتکار وفاقی حکومت کے مقرر کردہ امدادی رقم سے مستفید نہ ہوسکے ۔

صوبائی کابینہ نے اپنے اجلاس میں گندم کی خریداری کے عمل میں تاخیر کے ذمہ دار آفیسران کے خلاف انکوائری کا فیصلہ کیا ہے البتہ گندم کی خریداری کے لئے پاسکو کے حدف کو بلوچتان میں بڑھانے کے لئے حکومت بلوچستان کو التجا ء بھجوائی گئی ہے تاکہ زمینداروں کو نقصان سے بچایا جاسکے ۔انہوں نے کہا کہ اس سال بھی صوبائی حکومت نے تمام لوگوں کو سستے داموں آٹے کی فراہمی کو یقینی بنان کے لئے گندم کی فی سو کلو بوری کی قیمت 2800 روپے مقرر کی ہے جس سے صوبائی خزانہ پر سبسڈی کی مدمیں تقریباً ڈھائی ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا ۔

نواب ثناء اللہ زہری کا کہنا تھا کہ جاری مالی سال کے دوران جنگلات کی بہتری کے لئے مختلف اضلاع میں خاطر خوارہ تعداد میں نرسریاں بنائی گئی ہیں تاکہ شجر کاری مہم کے دوران زیادہ سے زیادہ پودے میسر آسکیں۔ علاوہ ازیں محکمے کے کام میں بہتری کیلئے غیر ترقیاتی بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا ہے جس کا حجم 1 ارب 8 کروڑ 62 لاکھ روپے کردیا گیا ہے ۔

مزید برآں مالی سال 2016-17 میں 15 جاری اور 5 نجے منصوبوں کیلئے 12 کروڑ 9 لاکھ روپے کی ضروری فنڈ مہیا کئے جائی ں گ تاکہ صنوبر ، تمر ، شینہ ، زیتون و چلغوزہ کے قدرتی جنگلات کی بہتری ، چراگاہوں کے بہتر بندوبست ، واٹر شیڈ کے تحفظ ، جنگلی حیات کی حفاظت اور شاہراہوں کے کناروں پر شجر کاری جیسے اقدامات کئے جاسکیں ۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ بلوچستان توانائی خصوصاً متبادل توانائی کے وسائل سے مالا مال ہے جن سے شمسی ، ونڈ اور جیو تھرمل کی وافر توانائی حاصل کی جاسکتی ہے ۔

کورین کمپنی کی شراکت سے کچلاک ضلع کوئٹہ میں شمسی توانائی کاپلانٹ لگایا جائے گا جس سے 3 سو میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکے گی ۔ بلوچستان کی مختلف یونیورسٹیوں کو بتدریج شمسی توانائی کے نظام پر لایا جائے گا جس پر 30 کروڑ روپے لاگت کا تخمینہ ہے ۔ سرکاری عمارتوں کوبھی بتدریج شمسی توانائی کے نظام پر لایا جائے گا جس پر تقریباً 15 کروڑ 70 لاکھ روپے لاگت آئے گی اسی طرحکومت کے ماتحت چلنے والے واٹر سپلائیاسکیموں کو بھی شمسی توانائی پر لایا جائے گا جس کے لئے 40 کروڑ 76 لاکھ روپے تجویز کئے گئے ہیں ۔

صوبے بلوچستان کے دور دراز پچاس بنیادی صحت کے مراکز جو بجلی کی سہولت سے محروم ہے کو بھی شمسی توانائی فراہم کرنے کی تجویز ہے جس پر 24 کروڑ روپے لاگت کا تخمینہ ہے ۔ سولر انرجی کے آلات کو جانچنے کے لئے ایک ٹیکنیکل لیبارٹری کی تجویز ہے جس پر لاگت کا تخمینہ ایک کروڑ روپے ہے ۔ نجی شعبے نے توانائی کے نئے منصوبوں میں سرمایہ کاری کی خواہش ظاہر کی ہے اور اس وقت دو کمپنیوں نے تحریری درخواستیں جمع کرادیئے ہیں ۔

مزید 2 کمپنیوں سے ایم او یوز پر بات چیت جاری ہے ۔ امید ہے آئندہ مالی سال میں توانائی کے شعبے میں نجی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا ۔ وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے بتایا کہ اس وقت صوبے کے مختلف ضلعوں میں انڈسٹریل اسٹیٹ موجود ہے جن میں کوئٹہ ، ڈیرہ مراد جمالی ، گوادر ، لسبیلہ شامل ہیں جبکہ بوستان ، خضدار ، تربت اور پسنی میں نئے انڈسٹریل اسٹیٹس کے قیام کے لئے مزید خاطر خواہ اقدامات کئے جائیں گے ۔

اس وقت صوبے بھر میں سمال انڈسٹریز کے تحت کم و بیش ایک سو 51 سے زائد تربیتی مراکز ہیں جن میں سہولیات بہم پہنچانے کی کوششیں کی جارہی ہیں تاکہ ان مراکز سے تربیت حاصل کرنے کے بعد مقامی لوگ روایتی دستکاری کے ذریعے اپنا روزگار خود پیدا کریں اور خود کفیل ہوں ۔ آنے والے مالی سال 2016-17محکمہ صنعت و تجارت کے لئے ایک ارب 18 کروڑ 62 لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں جو موجودہ مالی سال کے مقابلے میں تقریباً 7 فیصد زیادہ ہے ۔

خضدار ، تربت ، دشت ، قلعہ سیف اللہ اور بوستان میں اسپیشل اکنامک زونز کا قیام عمل میں میں لایا جائے گا جس سے صوبے میں مزید صنعتوں کا قیام عمل میں آسکے گا اور بے روزگاری میں خاطر خواہ کمی نہیں آئے گی ۔حب ،ڈیرہ مراد جمالی اور کوئٹہ میں انڈسٹریل اسٹیٹس کے قیام کو جلد پایہ تکمیل تک پہنچایاجائیگا اس کے علاوہ گوادر کیچ اور مسلم باغ میں بھی اس مقصد کیلئے زمین حاصل کی جارہی ہے جس پر جلد ہی ترقیاتی کام کاآغاز کردیاجائیگا۔

انڈسٹریل اسٹیٹ بوستان اور کوئٹہ میں وفاقی حکومت کے تعاون سے کام ہورہاہے ،معلومات عامہ کے شعبے کی اہمیت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا خاص طور پر آج کل کے دور میں جمہوری حکومتوں کو عوامی مشکلات سے با خبر رہنے کیلئے معلومات عامہ کاسہارالینا پڑتاہے یہ شعبہ حکومت کو بہتر تجاویز کے ذریعے عوام کے مسائل حل کرنے میں اہم کرداراداکرتاہے ،جرنلسٹ ویلفیئر فنڈ کو (دوکروڑ روپے )سے بڑھا کر (تین کروڑروپے) کردیاگیاہے اس رقم سے حاصل شدہ منافع صحافیوں کی فلاح وبہبود پر خرچ کیاجائیگا،مالی سال 2015-16کے دوران ہاکرز ویلفیئر فنڈ کو 50لاکھ روپے سے بڑھا کر ایک کروڑ روپے کردیاگیاہے اس فنڈ سے حاصل شدہ منافع نادار ،معذور اور فوت ہونے والے ہاکرز کے لواحقین کی فلاح وبہبود کیلئے خرچ کیاجائیگا۔

صوبے کے صحافیوں کو اعلیٰ صحافتی تربیت کیلئے بلوچستان اکیڈمی فار جرنلزم کے قیام کو یقینی بنانے کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھائے جارہے ہیں،رواں مالی سال کے دوران پریس کلب کوئٹہ کیلئے دس لاکھ روپے سے بڑھا کر بیس لاکھ روپے کردیاگیاہے ۔صوبائی حکومت خواتین کے حقوق ،تحفظ اورفلاح وبہبود کیلئے کوشاں ہے تاکہ خواتین کو زندگی کے ہرشعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ لایاجاسکے ،اس مقصد کیلئے رواں مالی سال میں اس محکمے کیلئے نہ صرف آسامیاں دی گئی ہیں بلکہ اگلے مالی سال اس محکمے کیلئے 10کروڑاوربیس لاکھ روپے کابجٹ رکھاگیاہے ۔

ایک جامع ڈائریکٹریٹ کا قیام عمل میں لایاگیاہے ،ماتحت دفاتر خضدار ،کوئٹہ اور سبی میں قائم کردئیے گئے ہیں اور مزید دفاتر کیچ ،نصیر آباد اورلورالائی میں کھولے جارہے ہیں ،اینٹی ہراسمنٹ ایکٹ بلوچستان اسمبلی سے منظور ہوچکاہے اورتمام محکموں میں ذیلی کمیٹیاں تشکیل دیدی گئی ہیں اس کے علاوہ گھریلو تشدد کیخلاف بل کی منظوری بھی دیدی گئی ہے ۔

انہوں نے کہاکہ امسال خواتین کی ترقی کیلئے پہلا وومن بزنس سینٹر قائم کیاجارہاہے جس کیلئے تین کروڑروپے مختص کئے گئے ہیں ،ان کاکہناتھاکہ ماحولیات کے تحفظ کیلئے موجودہ حکومت بھرپورکام کررہی ہے جس کیلئے رواں مالی سال بلوچستان تحفظ ماحولیات ٹریبونل ایک کروڑ 43لاکھ روپے کی لاگت سے قائم کیاگیاہے انوائرومینٹل پروٹیکشن ایجنسی ڈائریکٹوریٹ میں لیبارٹری کے تحت قائم کردی گئی ہے ڈویژنل آفس بمقام لورالائی اور ڈویژنل آفس بمقام گوادر کی منظوری بھی دی گئی ہے ۔

انہوں نے کہاکہ کھیل کے حوالے سے آنیوالے مالی سال 2016-17 میں محکمہ کھیل کیلئے گرانٹ 1کروڑ80لاکھ روپے سے بڑھا کر 10کروڑروپے کردی گئی ہے ۔اس سال دو نیشنل چیمپئن شپ منعقد کئے گئے جس پر تقریباََ 1کروڑ50لاکھ روپے لاگت آئی ،پورے صوبے میں جشن آزادی 2015کے حوالے سے تقریباََ منعقد کی گئیں جس پر تقریباََ 16کروڑروپے خرچ آیا ۔اس کے علاوہ صوبے میں وینٹر سپورٹس گا لا منعقد کیا گیا جس پر تقریباََ63لاکھ روپے لاگت آئی ۔

پاک فوج کے بھرپور تعاون سے جاری مالی سال کے دوران کھیلوں کے فروغ کیلئے غیر ترقیاتی مد میں 13کروڑروپے 40لاکھ روپے کی لاگت سے بلوچستان اسپورٹس فیسٹیول2016 کامیابی کیساتھ منعقد کیاگیا۔اسی مالی سال یوتھ کیلئے 250ملین روپے مختص کئے گئے ہیں تاکہ وہ دوسرے صوبوں کے طلباء وطالبات کیساتھ غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں۔انہوں نے کہاکہ ہماری اس کم آبادی والے صوبے میں قابل روزگار آبادی میں اتنی بڑی تعداد کا بے روزگار ہونا لمحہ فکریہ ہے ،اس حقیقت کومدنظررکھتے ہوئے اگلے مالی سال کیلئے 3220نئی آسامیاں پیدا کی جائیں گی جس سے براہ راست روزگار کے مواقع میسر ہونگے ،صوبائی حکومت کے مختلف اداروں میں نوجوانوں کوتربیت دی جائیگی تاکہ وہ اپنے لئے خود روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے قابل بن جائیں۔

محکمہ صحت کے ڈاکٹروں کے طرز پر محکمہ سوشل ویلفیئر ،لیبر اورپاپولیشن کے گریڈ17اور گریڈ18 کے ڈاکٹرز کو بھی نان پریکٹس الاؤنس چار ہزار اور چھ ہزار روپے کی منظوری دیدی گئی ہے اس کے علاوہ ہیلتھ پروفیشنل الاؤنس کی مد میں بھی پندرہ ہزار اور دس ہزار ماہانہ کی منظوری دیدی گئی ہے محکمہ سوشل ویلفیئر ،لیبر اور پاپولیشن کے فارماسسٹس کیلئے بھی دس ہزار ہیلتھ پروفیشنل الاؤنس کی منظوری دیدی گئی ہے صوبے کے تمام جونیئر کلرکس کو گریڈ 9سے گریڈ 11میں اپ گریڈیشن دیدی گئی ہے ،صوبے کے تمام سینئرکلرکس کو گریڈ 11سے B-14میں اپ گریڈ کردیاگیاہے اسی طرح ہم نے اسسٹنٹ کو B-16اور سپرنٹنڈنٹ کو B-17میں اپ گریڈیشن دیدی گئی ہے ۔

پی ایس پی اے وغیرہ کیلئے وفاقی حکومت کے احکامات کے مطابق ان کے اسپیشل الاؤنس میں 100فیصد اضافہ کردیاگیاہے ۔وزیراعلیٰ نے کہاکہ آئندہ مالی سال 2016-17میں تنخواہوں اور پینشن کے حوالے سے صوبائی حکومت ملازمین اور پینشنرز کیلئے وفاقی حکومت کے اعلان کردہ طرز پر اضافے کرتے ہوئے سرکاری ملازمین کے تنخواہوں میں اضافے کی طرز پر مزدورطبقے کی بہبود کیلئے شرح کو 13ہزار روپے سے بڑھا کر 14ہزار روپے کیاجارہاہے آئندہ 14ہزار روپے ماہوار سے کم تنخواہ پر ملازم رکھنا قابل جرم سزا تصور ہوگا۔

اقلیتیوں کے بنیادی وآئینی حقوق کوتحفظ فراہم کرتے ہوئے ان کے پانچ فیصد کوٹہ پر سختی سے عملدرآمد کی جائیگی اور خلاف ورزی کرنیوالوں کوسخت سزا دی جائیگی ۔وزیراعلیٰ نے کہاکہ معذوروں کے بنیادی وآئینی حقوق کو بھی تحفظ فراہم کیا جارہاہے معذوروں کیلئے مختص کوٹہ پر سختی سے عملدرآمد کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں انہوں نے کہاکہ آنے والے مالی سال 2016-17میں اسپیشل لڑکوں اورلڑکیوں کیلئے ایک انٹر کالج کا قیام عمل میں لایاجائیگا۔

رواں مالی سال کے دوران 5ارب 25لاکھ 95ہزار روپے بطور معاوضہ دہشتگردی کے متاثرین کیلئے تقسیم کردیاگیاہے انہوں نے کہاکہ اس کے علاوہ دہشتگردی سے شہید ہونے والے سرکاری ملازمین کے لواحقین کی تعلیم،صحت ،گھر ،تنخواہ اورپنشن کیلئے اخراجات بھی حکومت بلوچستان اداکررہی ہے جبکہ عام شہر جو دہشتگردی میں زخمی یا شہید ہوا ہوں کیلئے بھی خاطر خواہ رقم فراہم کی گئی ہے ۔

انہوں نے کہاکہ مالی سال2016-17 کیلئے 289.356ارب روپے کابجٹ تجویز کیاگیاہے اس میں 17.182ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ بھی شامل جس میں بیرونی تعاون کاحصہ 6.181ارب روپے ہے ،انہوں نے کہاکہ اس سال غیر ترقیاتی بجٹ میں 218.174ارب روپے کا ہے جس میں ریو نیو اخراجات کا تخمینہ 184.761 ارب روپے اور کیپٹل اخراجات کیلئے 33.413ارب روپے شامل ہیں صوبے کے وسائل سے آمدن کاتخمینہ 9.120ارب روپے ہیں جبکہ وفاق سے حاصل ہونیوالی آمدن کاتخمینہ 252.871ارب روپے ہیں جبکہ اس سال 2016-17کے بجٹ کا خسارہ 36.485ارب روپے ہوگا۔

ترقیاتی بجٹ انہوں نے کہاکہ مالی سال 2016-17کی پی ایس ڈی پی کا سائز 71.182ارب روپے تجویز کیاگیاہے جس میں تعلیم ،صحت ،امن وامان ،آبنوشی ،مواصلات اور پانی وتوانائی کے شعبوں کو ترجیح دی گئی ہے بے جا اور غیر ترقیاتی اخراجات کو کم کرکے وسائل کوترقیاتی سرگرمیوں کیلئے استعمال کیاجارہاہے ۔انہوں نے کہاکہ پٹ فیڈر کینال سے کوئٹہ شہر کو پانی کی فراہمی کیلئے کوئٹہ واٹرسپلائی پروجیکٹ کیلئے 40ارب روپے مختص کرنے کافیصلہ کاگیاہے اس حوالے سے 10ارب روپے آنیوالے مالی سال 2016-17کیلئے مختص کئے گئے ہیں۔

صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کی خوبصورتی وترقیاتی کاموں کی مد میں 5ارب روپے مختص کئے گئے ہیں انہوں نے کہاکہ حکومت چین کے تعاون سے کوئٹہ ماس ٹرانزٹ ٹریم اسکیم کیلئے 2ارب روپے فراہم کئے جائینگے ۔کوئٹہ گرین بس پروجیکٹ کیلئے 1ارب روپے مختص کئے گئے ہیں انہوں نے کہاکہ تمام ڈویژنل ہیڈکوارٹرز بشمول گوادر شہر کی اپ گریڈیشن اور خوبصورتی کیلئے 3ارب روپے فراہم کئے جائیں گے ۔

وزیراعلیٰ کاکہناتھاکہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں میں بہتری لانے کیلئے ایک ارب اور 50کروڑروپے رکھے گئے ہیں انہوں نے کہاکہ لوکل کونسلز کیلئے ترقیاتی گرانٹ کی مد میں 5ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔وزیراعلیٰ بلوچستان کاکہناتھاکہ اس سال صوبے کے قابل طلباء وطالبات کو لیپ ٹاپ دئیے جائیں گے جس کیلئے 50کروڑروپے مختص کئے گئے ہیں جبکہ جاری اسکیموں کیلئے 10ارب روپے مختص کئے جارہے ہیں انہوں نے کہاکہ حکومت بلوچستان مالی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے اوربجٹ خسارہ کم کرنے کیلئے سختی سے اٹھائے گئے اقدامات پر عمل پیرا ہے ،حکومت بلوچستان نے مالی سال 2015-16کے دوران نہ صرف ٹیکس اصلاحات کیں بلکہ مالی معاملات میں بہتری کی بھرپورکوششیں کیں انہوں نے کہاکہ مالی نظم وضبط کی غرض سے پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹر اتھارٹی قائم رکدی گئی ہے تاکہ غیرضروری معاملات کی جانچ پڑتال ہوسکے۔

انہوں نے کہاکہ حکومت بلوچستان نے مالی سال 2015-16کے دوران ٹیکس اصلاحات کی مد میں خا طر خواہ بہتری آئی ہے اوراس سلسلے میں بلوچستان ریونیو اتھارٹی کا قیام بھی عمل میں لاناہے جس نے 8ماہ کے قلیل عرصہ کے دوران جی ایس ٹی آن سروس کی مد میں تقریباََ2ارب 20کروڑروپے سے زائد ٹیکس وصول کیا جوپچھلے سالوں کے دوران کی گئی وصولیوں کی نسبت نمایاں بہتری ہے ،انہوں نے کہاکہ ایک اورخوشی کی بات یہ ہے کہ صوبے کے وسائل میں مالی سال 2015-16کے دوران تقریباََ2ارب روپے کا اضافہ ہورہاہے وزیراعلیٰ نے کہاکہ لگژری گاڑیوں کی خریداری پر مکمل پابندی عائد رہے گی ،انہوں نے کہاکہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی تشکیل دیدی گئی ہے اور اس کی کارروائیوں اور فعالیت کیلئے تسلسل کو قائم رکھاجائیگا وزیراعلیٰ نے کہاکہ پی ایس ڈی پی کے تحت مختلف منصوبوں پر مروجہ قوانین کے تحت عملدرآمد کویقینی بنایاجارہاہے حکومتی خرچے پر بیرون ملک علاج ومعالجے ،سیمیناروں ،کانفرنسوں اورورکشاپوں میں شرکت پر عائد پابندی پرسختی سے عملدرآمدکیاجائیگا۔

اورحکومتی خرچے پر ہوٹلوں میں میٹنگ وتقریبات کے انعقاد پر بھی مکمل پابندی ہوگی۔وزیراعلیٰ نے کہاکہ مالی سال 2015-16کے دوران نئے ریٹائرڈ ہونیوالے ملازمین کی مینول پنشن سسٹم ختم کرکے کمپیوٹرائزڈ نظام کے ذریعے پنشن کااجراء صوبے کے تمام اضلاع میں شروع کردیاگیاہے اور اس کے ساتھ ساتھ پرانے پنشنرز کیلئے آسانیاں پیداہونگی بلکہ گھوسٹ پنشنرز کابھی خاتمہ ممکن ہوسکے گا جس سے حکومت کو کروڑوں روپے کی بچت ہوگی ۔

انہوں نے کہاکہ حکومت سالانہ تقریباََ12ارب روپے پنشن کی مد میں ادا کررہاہے جو حکومتی خزانے پر بہت بڑا بوجھ ہے جس کیلئے حکومت نے مالی سال 2016-17 کے دوران اپنے پنشن فنڈ میں تین ارب روپے کی انوسٹمنٹ کرنے کاارادہ رکھتی ہے اور ہرسال اس میں بتدریج اضافہ کیاجائیگا تاکہ پنشن کے اخراجات اس فنڈ سے حاصل ہونیوالی آمدنی سے پورے کئے جاسکیں۔انہوں نے کہاکہ اس کے علاوہ حکومت بلوچستان نے مالی سال 2015-16 کے دوران اپنے ملازمین کی بہبود کیلئے بنولنٹ فنڈ اور گروپ انشورنس سکیم کے تحت 40ہزار سے زائد ملازمین کومراعات میں تقریباََ2ارب روپے سے زائد ادائیگی کردی ہے ۔

انہوں نے کہاکہ مالی سال 2015-16 کے دوران حکومت نے بلوچستان بورڈ آف انوسٹمنٹ جیسے اہم ادارے کا قیام عمل میں لایاہے جو صوبے میں پرائیویٹ سیکٹر انوسٹمنٹ کی حوصلہ افزائی کرنے کیلئے انت�