سینٹ کا بھارت کے بڑھتے اثر و رسوخ ،پاکستان کی سفارتی تنہائی پر تحفظات کا اظہار

خارجہ پالیسی کو پارلیمنٹ کے تابع بنانے کا مطالبہ، ڈالروں کے عوض سلامتی اور خودمختاری کو داؤ پر لگا دیا،چیئرمین سینیٹ رضا ربانی افغان خفیہ ایجنسی کی مداخلت کے ثبوت عالمی دنیا کو فراہم کئے ، نیوکلیئر گروپ کا ممبر بننے کیلئے کامیاب سفارت کاری کی گئی، مشیر خارجہ، تحریک التوا پراظہار خیال

منگل 14 جون 2016 10:48

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔14جون۔2016ء) سینٹ نے خطے میں انڈیا کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور پاکستان کی سفارتی تنہائی پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے خارجہ پالیسی کو پارلیمنٹ کے تابع بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ چیئر مین سینٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ ڈالروں کے عوض اپنی سلامتی اور خودمختاری کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ افغان خفیہ ایجنسی کی پاکستان میں مداخلت کے ثبوت عالمی دنیا کو فراہم کئے ہیں ۔

پاکستان کی جانب سے نیوکلیئر گروپ کا ممبر بننے کے لئے کامیاب سفارت کاری کی گئی ہے۔ پاکستان اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات اور خودمختاری کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے سینیٹر عتیق شیخ کی جانب سے تحریک التوا پر بحث کو سمیٹتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

تحریک التوا بجٹ کا آغاز کرتے ہوئے سینیٹر عتیق شیخ نے کہا کہ چاہ بہار پورٹ شروع ہونے کے بعد گوادر پورٹ کی کیا صورتحال ہو گی اور کیا حکومت پاکستان کو اس کا ادراک ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم گوادر کو ایک آئیڈیل پورٹ کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں اور ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ ابھی تک ہم نے گوادر پورٹ میں کتنا کام کیا ہے اگر اس کے مد مقابل چاہ بہار پورٹ فنکشنل ہو گیا تو اس وقت ہماری کیا پوزیشن ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے مستقبل کے حالات سے نمٹنے کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ گوادر پورٹ کے مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جائے۔

سینیٹر فرحت الہ بابر نے کہا کہا اگر اقتصادی راہداری پر نیک نیتی سے کام کیا جائے تو ہمیں چاہ بہار پورٹ کے حوالے سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ کے بارے میں سینٹ کمیٹی کی رپورٹ آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت صرف چاہ بہار کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایف 16کا مسئلہ ہے امریکہ اور پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات ہو یا بھارت کا مسلمان ممالک کے ساتھ بڑھتا ہوا اثر و رسوخ ہو پاکستان اس وقت بہت زیادہ تنہا ہو رہا ہے اور یہ بڑھتی ہوئی تنہائی ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی کا ثبوت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کے تمام پہلوؤں پر غور کرنا ہو گا کہ ہم کہاں پر غلط ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ملا منصور پر ڈرون حملے کے بعد ہماری کیا پوزیشن ہے کیا دیگر افغان طالبان کے رہنما موجود ہیں جن کو پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ ملے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جہادی تنظیموں کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے جہاد کے جھنڈوں کو دوبارہ لہرایا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی خارجہ پالیسیوں کو بہتر کرنا ہو گا بصورت دیگر ہماری تنہائی ختم نہ ہو گی۔ سینیٹر عثمان کا کڑ نے کہا کہ ریاستوں کے اپنے مفادات ہوتے ہیں مگر پاکستان نے اپنے مفادات کا خیال رکھا ہے اور نہ ہی عوام کے مفادات کا خیال رکھا ہے۔ اس وجہ سے ہم بین الاقوامی سطح پر تنہا ہو گئے ہی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے دوسرے ممالک کے کہنے پر افغانستان میں گیس کے منصوبوں کو ناکام بنایا ۔

اسی طرح افغان ٹریڈ کی آڑ میں افغان تاجروں کو پریشان کیا گیا جس کی وجہ سے زیادہ تر تجارت ایران کی سمت منتقل ہو گئی ہے انہوں نے کہا کہ انڈیا 1ارب افراد کو مطمئن کر رہا ہے مگر پاکستان میں تین صوبوں کو مطمئن نہیں کیا جا رہا ہے صرف ایک صوبے پنجاب کو ہر طرح کی سہولتیں دی جا رہی ہیں جبکہ دیگر صوبوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہماری خارجہ اور داخلہ پالیسیاں پارلیمنٹ کے طابع نہ ہو تو پوری دنیا میں اکیلے رہ جائے گے انہوں نے کہا کہ چاہ بہار بننے سے گوادر پورٹ کو بہت زیادہ نقصان ہو گا۔

سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی آ رہی ہے اور اب وہ چین کے مقابلے میں ہندوستان کو اہمیت اور پاکستان کو دبانا چاہتا ہے انہوں نے کہا انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی بھی عالمی سطح پر پاکستان کو تنہا کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سلالہ واقع کے بعد قومی سلامتی کا معاملہ پارلیمنٹ کے پاس آیا تھا اب دوبارہ وقت آ گیا ہے کہ معاملات پارلیمنٹ میں لائے جائیں۔

ملا منصور پر ڈرون حملے کے 24گھنٹوں تک حکومت کی جانب سے کوئی رد عمل نہیں آیا ہے گزشتہ ایک سال کے دوران نیشنل سکیورٹی کی کتنی میٹنگز ہوئی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ خارجہ پالیسی کا ڈنگ ٹپاؤ نہیں چلے گا اگر ہم گوادر وک جلدی چلا دیتے ہیں تو لوگ خود ہی ہمارے پاس آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ خارجہ پالیسی میں خاکی یا مفتی سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ہمیں اس وقت بہتر اقدامات کرنے کے لئے منصوبہ بندی کرنی ہو گی۔

سینیٹر سید مظفر حسین شاہ نے کہا کہ افغانستان میں دیر پا امن پاکستان کی مدد اور تعاون کے بغیر نا ممکن ہے ۔ افغانستان اور ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بہتر ہونا ضروری ہے۔ ہمیں ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کو جلد مکمل کرنا ہوگا۔ انوہں نے کہا کہ ہمیں چاہ بہار پر ہندوستان کی سرمایہ کاری کو نہیں دیکھنا چاہیئے بلکہ پاکستان کی ترقی کے لئے ایران کے ساتھ بہتر تعلقات اور اقتصادی راہداری کے منصوبے کو دینا ہو گی۔

سینیٹر مظفر نے کہا کہ امریکہ کے افغانستان میں فوج بھجوانے کو دیکھنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں سے پیدا ہونے والی صورتحال کو مد نظر رکھنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ گوادر پورٹ چاہ بہار کے مقابلے میں بہت زیادہ گہرا ہے اور اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے ۔ حکومت گوادر کو بہت زیادہ توجہ دے کر اس کو مکمل کرے۔ سینیٹر بابر اعوان نے کہا کہ گزشتہ 4سالوں سے وزیر خارجہ سے محروم ہیں انہوں نے کہا کہ انڈیا کی جانب سے چاہ بہار پر سرمایہ کاری کرنے سے ہمیں خطرات لاحق ہوئے ہیں۔

بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی جس کو امریکہ میں داخلہ بند تھا اب پوری دنیا میں اس کی آؤ بھگت ہو رہی ہے مسلم ممالک میں اس کی بے حد پذیرائی ہو رہی ہے اور ہمیں کہا جا رہا ہے کہ فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سفارتکاری مکمل طو رپر ناکام ہو چکی ہے نیوکلیئر سپلائر گروپ کی رکنیت کے لئے پاکستان سے ٹیلیفون کئے جا رہے ہیں اس کے برعکس انڈیا بھرپور سفارتی مہم چلا رہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ سے تعلقات پر خرابی پر حکومت لرز جاتی ہے مگر عوام خوش ہوتے ہیں انہوں نے کہا کہ کیا میٹرو بس کی سرمایہ کاری گوادر پر نہیں کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف کلبھوشن کی مذت ہی کر دیتے تو کافی ہوتا۔ سینیٹر میر کبیر نے کہا کہ چاہ بہار پورٹ کو انڈیا کے علاوہ کوئی استعمال نہیں کرے گا اگر ہم نے گوادر کے ساتھ ساتھ ریل روٹ پر بھی علم کیا تو پوری دنیا کے ممالک وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تجارت کے لئے اس روٹ کو استعمال کریں گے۔

سینیٹر اجوید عباسی نے کہا کہ چاہبہار کا مسئلہ نیا نہیں ہے بلکہ یہ دونوں ممالک کے مابین بہت پرانا تجارتی رابطہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں چاہ بہار سے کوئی خطرہ نہیں ہے بھارت کے لئے اقتصادی راہداری کے منصوبے کو ہضم کرنا ممکن نہیں ہے اس وجہ سے نریندر مودی پوری دنیا کے دورے کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں گوادر پورٹ کو بہت زیادہ ترجیح دینا ہو گی اور اس کو جلد از جلد مکمل کرنا ہو گا۔

سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ دنیا میں تبدیلیوں کی وجہ سے معاشی بلاک بن رہے جو ممالک معاشی طور پر مضبوط ہونگے وہی کامیاب ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے دوستوں کو دشمنوں کی جانب دھکیل رہے ہیں گیس پائپ لائن پر ایران نے اربوں ڈالر خرچ کئے مگر ہم نے ابھی تک ایک انچ گیس پائپ لائن تعمیر نہیں کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں انڈیا سے خوف کھانے کی ضرورت نہیں انڈیا پر مزہبی انتہا پسندوں کا راج ہے جب تک ہندوستان کے اندر ترقی پسند غالب نہ آئیں اس وقت تک وہ کامیاب نہیں ہو سکتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ سیکھنا ہو گا کہ کس طریقے سے پڑوسی ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کر سکتے ہیں۔ سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ بد قسمتی سے پاکستان کی خارجہ پالیسی ناکام ہو چکی ہے ۔ حکومت کو خارجہ پالیسی کی بہتری کے لئے اقدامات کرنے ہونگے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اپنے دوست منتخب کر سکتی ہے مگر اپنے پڑوسی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے پڑوسیوں کے ساتھ بہتر تعلقات کے لئے خارجہ پالیسی کو بہتر بنانا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ گوادر پورٹ کو چاہ بہار سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنی سمت کھو چکے ہیں ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کو عوام کی خواہشات کے مطابق بنانا ہو گا۔ سینیٹر اعظم موسیٰ خیل نے کہا کہ بدقسمتی سے گوادر بلوچستان میں واقع ہے جس کی وجہ سے وہاں پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ بدقسمتی سے اقتصادی راہداری پر ابھی تک اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنا قبلہ درست کرنا ہو گا لاہور کی حکمرانی سے مزید ملک نہیں چلائے جا سکتے ہیں۔ سینیٹر سیف اللہ مگسی نے کہا کہ ہمیں کسی سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ہماری خارجہ پالیسی حکومت کی جانب سے اور پارلیمنٹ کی جانب سے نہیں ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اگر ہمارے پڑوسی ممالک کو توجہ ملے تو ہمیں رونا نہیں چاہیئے بلکہ اپنی پالیسیوں کو بہتر بنانا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ ملک کے تمام سٹیک ہولڈروں کی مشاورت سے خارجہ پالیسی بنانی چاہیئے۔ سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ حکومت خود جان بوجھ کر اقتصادی راہداری کو ناکام بنانے میں مصروف ہے ۔ ہندوستان کی جانب سے اقتصادی راہداری کو ناکام بنانے کے لئے 700ارب ڈالر خرچ کرنے کے حوالے سے پاکستان کے وفاقی وزیر کے بیان کا نوٹس لینا چاہیئے اور اس کی تفتیش ہونی چاہیئے کہ رقم خود حکومت وقت نے گھر نہیں لی ہے۔

مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے تحریک التوا پر بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ حکومت گوادر پورٹ کی ترقی کو خصوصی توجہ دے رہی ہے اور آنے والے سالوں میں گوادر پورٹ کو تمام سہولیات حاصل ہونگی انہوں نے کہا کہ گوادر پورٹ پر چین کی جانب سے تجارت منتقل کرنے سے بہت زیادہ فائدہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نہ صرف چین بلکہ وسطی ایسیائی ریاستوں کے ساتھ بھی اپنے رابطے بڑھا رہا ہے ۔

کاسا ایک ہزار کا منصوبہ، پشاور جلال آباد ریل منصوبہ، چائنہ، کرغستان اور پاکستان پشاور جلال آباد ہائی وے سمیت کئی منصوبے زیر تعمیر ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان سفارتی سطح پر تنہا نہیں ہے انہوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے ہماری معاشی ترقی بہتر نہیں تھی مگر اب ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن اور تجارت کے معاہدے جاری ہیں اس طرح افغانستان کے ساتھ تجارتی روابط میں بہتری ہوئی ہے انہوں نے کہا کہ خارجہ پالیسی پر بحث ہو رہی ہے کہ ہمارے لئے امریکہ بہتر ہے یا چائنہ بہتر ہے اس بحث کی روشنی میں نئی راہیں متعین کی جائیں گی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں انڈین خفیہ ایجنسی کی مداخلت کے بارے میں امریکہ سمیت کئی ممالک کو دستاویزات فراہم کئے ہیں۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے مزید کہا کہ ہم نے بہت بہتر پالیسی شروع کی ہے کہ پاکستان کو نیو کلیئر سپلائیر گروپ کا ممبر بنانے کے لئے تمام ممالک سے رابطے ہیں اور ہم پاکستان کو گروپ کا ممبر بنانے کے لئے بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ویانا میں ہمارے نکتہ نظر کو سنا اور تسلیم کیا گیا ہے اور اگلے اجلاس میں اس پر غور کیا جائے گا انہوں نے کہا کہ پاکستان کی کامیاب خارجہ پالیسی کا مظہر ہے ہماری خارجہ پالیسی ملک کے مفادات کے طابع ہے۔ اس بارے میں منفی تاثر درست نہیں ہے ہم نے پڑوسیوں کے ساتھ بہتر تعلقات اور اپنی سلامتی اور خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کی رہنمائی اور تعاون سے ہم اپنی خارجہ پالیسی کو مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مغرب کو جنگ کے موقع پر ہماری زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور جب بھی جنگیں ختم ہو جاتی ہیں تو ان کے مفادات کم ہو جاتے ہیں ہمیں اپنی خودمختاری کا تحفظ کرنا ہو گا۔ چیئر مین سینٹ نے کہا کہ ڈالر کی تلاش میں ہم نے اپنی سلامتی اور خودمختاری کو داؤ پر لگا دیا ہے۔