آرمی چیف کا امریکہ سے افغانستان میں ملا فضل اللہ و دیگر مطلوب دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر کارروائی کا مطالبہ

بلوچستان میں ڈرون حملہ پاکستان کی خود مختاری پر حملہ ہے ،پاکستان کا امریکہ سے شدید احتجاج پا کستا ن نے بھا رتی مدا خلت کے ثبو ت اورکلبھوشن یادو کا اعترافی بیان بھی امر یکی وفد کے سامنے پیش کر دیا

ہفتہ 11 جون 2016 10:23

راولپنڈی ( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔11جون۔2016ء )آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے امریکہ سے افغانستان میں ملا فضل اللہ و دیگر مطلوب دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر کارروائی کا مطالبہ کر دیا ہے۔ انہوں نے بلوچستان میں ہونے والے ڈرون حملے پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے امریکی جنرل جان نیکلسن اور امریکی خصوصی نمائند ہ برائے پاکستان و افغانستان رچرڈ اولسن نے ملاقات کی ہے ۔

اس موقع پر آرمی چیف نے امریکی وفد سے افغانستان میں ملا فضل اللہ، پاکستان تحریک طالبان اور دیگر مطلوب دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔ آرمی چیف نے افغانستان میں ہونے والے ڈرون حملے پر بھی تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ پاکستانی سلامتی پر حملہ ہے جس کے باعث باہمی تعاون پر اثرات مرتب ہوئے اور آپریشن ضرب عضب کی کامیابیوں پر بھی اس حملے کے منفی اثرات مرتب ہوئے۔

(جاری ہے)

آرمی چیف نے مزید کہا کہ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے اور بہتری سرحدی نظام سے خطے میں استحکام آ سکتا ہے۔ ”را“ ،این ڈی ایس سمیت کسی بھی غیر ملکی ایجنسی کو دہشت گردی کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان مستقل امن کیلئے افغانستان کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا۔ادھربلوچستان میں امریکی ڈرون حملے پر پاکستان نے امریکہ سے شدید احتجاج کیا ہے ،ایسے حملے پاکستان کی خود مختاری کیخلاف ہیں ،امریکی ڈرون سے خطے میں قیام امن کو نہ صرف شدید دھچکا لگا بلکہ پاک امریکہ تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوئے ،پاکستان نے امریکا اور بھارت کے بڑھتے ہوئے دفاعی تعلقات اور نیوکلیئر سپلائر گروپ میں بھارت کی شمولیت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ پاکستان کی سکیورٹی کا خیال رکھے۔

نیوکلیئرسپلائر گروپ میں بھارتی شمولیت سے خطے میں عدم استحکام پیدا ہو گا۔ اگر امریکہ بھارتی شمولیت کی حمایت کرتا ہے تو پاکستان کی بھی کرے۔ تفصیلات کے مطابق جمعہ کے روز اسلام آباد دفتر خارجہ میں پاکستان اور امریکی وفد کی ملاقات ہوئی ۔ ملاقات میں پاکستانی وفد کی قیادت مشیر خارجہ سرتاج عزیز ، سیکرٹری خارجہ اعتزاز چوہدری اور دفتر خارجہ کے دیگر حکام نے شرکت کی جبکہ امریکی وفد میں سینئر ڈائریکٹر ساؤتھ ایشیا افیئرز پیٹر لیو کے اور امریکی نمائندہ خصوصی پاکستان اور افغانستان رچرڈ اولسن نے شرکت کی۔

پاکستانی وفد نے امریکی وفد کے سامنے بھارت کی پاکستان میں مداخلت کا معاملہ اٹھایا۔ پاکستان نے امریکی وفد کو بھارتی خفیہ ایجنسی کے ایجنٹ کلبھوشن یادو کا اعترافی بیان دیکھانے کیساتھ ساتھ کراچی، بلوچستان اور فاٹا میں بھارت کے دہشتگردوں کی مالی اور عسکری مدد کے ثبوت پیش کئے۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے بلوچستان میں امریکی ڈرون حملے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں امریکی ڈرون حملے سے پاکستان کو شدید ٹھیس پہنچی۔

پاکستان میں امریکی ڈرون حملہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور پاکستان کی خودمختاری اور سلامتی کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی ڈرون حملے نے افغان امن عمل کو شدید دھچکا لگا ہے۔ جب بھی افغان مفاہمتی عمل کے لئے مذاکرات آگے بڑھتے ہیں کوئی نہ کوئی واقعہ رونما کر دیا جاتا ہے۔ مشیر خارجہ نے امریکہ اور بھارت کے بڑھتے ہوئے دفاعی تعلقات پر پاکستان کی سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا ساتھ دیا ہے۔

امریکہ بھارت کے ساتھ بڑھتے ہوئے پاکستان اور خطے کی سکیورٹی کی صورتحال کا خیال رکھے۔ انہوں نے کہا کہ نیو کلیئر سپلائر گروپ میں شمولیت کے لئے امریکا کی بھارتی حمایت پر پاکستان کو شدید تحفظات ہیں۔ نیوکلیئر سپلائر گروپ میں اگر صرف بھارت کی رکنیت ہو گی تو عدم استحکام پیدا ہو جائے گا امریکہ پاکستان کو بھی نیو کلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت کی حمایت کرے،اس موقع پر امریکی وفد کے نمائندے پیٹر لوالے کا کہنا تھا کہ پاکستان پر بھارت کو ترجیح دینے کا تاثر درست نہیں ہے۔

پاکستان خطے میں امریکہ کا اہم دوست ملک ہے۔ امریکہ دہشتگردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرتا ہے اور پاکستان سے دوستانہ تعلقات کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان تشدد کا راستہ ترک کرنے کے لئے تیار نہیں تھے ملا اختر منصور پر امریکی ڈرون حملہ کابل میں امریکی فورسز پر ہونے والے طالبان کے حملے کا رد عمل تھا۔ ملاقات کے اختتام پر دونوں ممالک کے وفود میں علاقائی امن و سلامتی کے لئے تعاون جاری رکھنے اور پاکستان اور امریکا کا مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔