اوبامہ انتظامیہ افغانستان میں اپنے فوجیو ں کی تعداد کم نہ کرے،سابق امریکی عسکری قیادت

افغانستان میں موجود 9ہزار 800 فوجیوں کی تعداد میں ہرگز کمی نہ کی جائے،اس سے افغانستان کی سلامتی پر ضرب پڑے گی، افغانستان سے ہجرت کر نے والے افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہو جائیگا،ریٹائرڈ فوجیوں اورسفارت کاروں کا امریکی جریدے میں شائع ہونیوالے صدر اوباما کے نام ایک کھلے خط میں مطالبہ

پیر 6 جون 2016 10:38

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔6جون۔2016ء)امریکا میں 13ریٹائرڈ جرنیلوں اور سینئر سفارت کاروں نے صدر باراک اوباما سے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان میں اس وقت موجود امریکی فوجیوں کی موجودہ نفری برقرار رکھی جائے، تاکہ وہاں مقامی فورسز کا حوصلہ بلند رہے۔امریکا کے ان سابق اعلیٰ فوجی عہدیداروں اور سینئر سفارت کاروں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ طالبان کے خلاف برسر پیکار افغان سکیورٹی فورسز کے حوصلوں کو جلا بخشنے کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ امریکا افغانستان میں اپنے فوجیوں کی موجودہ تعداد کو برقرار رکھے۔

یہ 13 سابق اعلیٰ عہدیدار وہ ہیں، جو صدر جارج ڈبلیو بش اور صدر باراک اوباما دونوں ہی کے ادوارِ اقتدار کے دوران افغانستان میں امریکی فوج کی کارروائیوں اور ہندو کش کی اس ریاست کے لیے عسکری اور سفارتی حکمت عملی مرتب کرنے کا کام انجام دیتے رہے ہیں۔

(جاری ہے)

ان میں سابق فوجی جرنیلوں کے علاوہ سی آئی اے کے سابق سربراہ ڈیوڈ پیٹریاس بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ افغانستان کے لیے پانچ سابق سرکردہ امریکی سفارت کار بھی ان 13 افراد میں شامل ہیں۔

امریکی جریدے ’نیشنل انٹرسٹ‘ یا ’قومی مفاد‘ میں شائع ہونے والے صدر اوباما کے نام ایک کھلے خط میں ان شخصیات نے کہا کہ افغانستان میں اس وقت موجود نو ہزار آٹھ سو فوجیوں کی تعداد کو ہرگز کم نہ کیا جائے، کیوں کہ اس سے افغانستان کی سلامتی پر ضرب پڑے گی جب کہ وہاں سے ہجرت کر کے دیگر ممالک کی جانب رخ کرنے والے افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔

اس خط میں کہا گیا ہے کہ افغان فوج اور عوام کے علاوہ ریاست اور اقتصادیات کے اعتبار سے بھی یہ نہایت ضروری ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی موجود تعداد برقرار رکھی جائے۔اس خط میں لکھا گیا ہے، ”ہمیں یقین ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد اور افغانستان کی دی جانے والی مالی مدد میں کمی وہاں اگلے چند ماہ میں صورت حال کو خراب کر سکتی ہے۔

یہ خط ایک ایسے موقع پر شائع ہوا ہے، جب چند روز بعد امریکی بری فوج کے افغانستان میں متعین کمانڈر ایک رپورٹ پیش کرنے والے ہیں، جس میں افغانستان کے حوالے سے ملکی پالیسی کے تناظر میں تجاویز پیش کی جائیں گی۔اوباما انتظامیہ کے موجود منصوبے کے مطابق اگلے برس کے آغاز تک افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد کو مزید کم کر کے ساڑھے پانچ ہزار تک لایا جائے گا۔ تاہم طالبان عسکریت پسندوں کی جانب سے حملوں میں تیزی اور امن عمل میں شامل ہونے سے انکار کے بعد افغانستان میں سلامتی اور مقامی فورسز کی عسکری اہلیت کے حوالے سے کئی طرح کے سوالات کھڑے ہو چکے ہیں۔

متعلقہ عنوان :