ایس ایس پی جہانزیب کاکڑ کی موت معمہ بن گئی،2ہفتے بعد بھی رپورٹ منظر عام پر نہ آسکی

سوشل میڈیا پر جاری تصاویر میں کاکڑ دفتر کے صوفے پر بیٹھے نظر آئے کنپٹی پر سوراخ کا نشان اور ہاتھ میں پستول تھا جو کہ ان کی گود میں پڑا ہوا تھا ڈیرہ اللہ یار اور کوئٹہ کی پوسٹمارٹم رپورٹس میں واضح فرق، پولیس سرجن ڈاکٹر بلوچ نے نعش کا دوسرا پوسٹ مارٹم کیا اور رپورٹ میں واقعہ کو قتل قرار دیا

جمعہ 3 جون 2016 09:25

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔3جون۔2016ء) گزشتہ ماہ بلوچستان کے ضلع جعفر آباد میں مبینہ طور پر قتل کئے گئے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کی موت کے بارے میں اصل حقائق اب تک سامنے نہیں آئے بلکہ ایس ایس پی جہانزیب کاکڑ کی موت پیچیدہ معمہ بن گئی ہے جہانزیب کاکڑ16 مئی کو اپنے دفتر میں مردہ حالت میں پائے گئے تھے ۔ اس موقع پر نامعلوم افراد نے ان کی جو تصاویر سوشل میڈیا پر جاری کیں تھیں ان کے مطابق کاکڑ اپنے دفتر کے ایک صوفے پر اس حالت میں بیٹھے نظر آئے کہ ان کی کنپٹی پر سوراخ کا نشان تھا جس سے بہنے والے خون نے ان کی سرکاری وردی کو آلودہ کر رکھا تھا اور یہ کہ ان کے ہاتھ میں پستول تھا جو کہ ان کی گود میں اس حالت میں پڑا ہوا تھا اور ایس ایس پی کے ہاتھ کی گرفت میں نظر آ رہا تھا ۔

جعفرآباد پولیس نے فوری طور پر الیکٹرانک میڈیا کو جو خبر مہیا کی اس کے مطابق کاکڑ نے اپنے سرکاری پستول سے خودکشی کر لی تھی ۔

(جاری ہے)

مقتول کے اہلخانہ نے ایس ایس پی کی موت کے بارے میں پولیس کا موقف مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ یہ خودکشی نہیں بلکہ قتل ہے انسپکٹر جنرل پولیس بلوچستان نے متعلقہ ڈی آئی جی شرجیل کھرل کو مرحوم پولیس افسر کی موت کی تحقیقات کی ذمہ داری سونپی تھی جس کی رپورٹ دو ہفتے گزرنے کے بعد بھی اب تک منظر عام پر نہیں آئی ۔

کوئٹہ میں پولیس سرجن نور بلوچ جنہوں نے مقتول ایس ایس پی کا دوسرا پوسٹ مارٹم سول ہسپتال کوئٹہ میں کیا تھا کا کہنا ہے کہ یہ خودکشی نہیں بلکہ قتل کا واقعہ ہے یاد رہے کہ جہانزیب کاکڑ کے مبینہ قتل کے چند گھنٹوں بعد جعفر آباد پولیس نے مقامی سرکاری ہسپتال ڈیرہ اللہ یار سے مرحوم کا پوسٹ مارٹم کروایا تھا ۔ پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر اشفاق نے جو رپورٹ مرتب کی تھی اس میں واضح طور پر لکھاگیا تھا کہ جہانزیب کاکڑ نے خودکشی کی ہے ۔

پولیس سرجن نے گزشتہ دو روز قبل ایک انگریزی اخبار ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ ڈیرہ اللہ یار ہسپتال کی رپورٹ حقائق کے برعکس ہے ڈاکٹر بلوچ نے فرانزک رپورٹ مرتب کی تھی جبکہ ڈیرہ اللہ یار ہسپتال میں فرانزک سہولیات میسر نہیں تھیں انہوں نے کہا کہ ڈیرہ اللہ یار میں مرحوم کا جو پوسٹ مارٹم کیا تھا وہ نعش کا بیرونی معائنہ تھا انہوں نے اس شک کا اظہار کیا تھا کہ ڈیرہ اللہ یار ہسپتال کے ڈاکٹر نے پولیس کے دباؤ میں آ کر واقعہ کو خودکشی قرار دیا ہو گا ڈاکٹر بلوچ نے کہاکہ ڈیرہ اللہ یار ہسپتال میں ہونے والے پوسٹ مارٹم کو ایک باقاعدہ اور مکمل پوسٹ مارٹم قرار نہیں دیا جا سکتا جب ڈاکٹر بلوچ سے پوچھا گیا کہ ڈیرہ اللہ یار میں صرف بیرونی پوسٹ مارٹم کیوں کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ جعفر آباد پولیس کے جو حکام مرحوم کی نعش لے کر ڈیرہ اللہ یار ہسپتال گئے انہوں نے ڈاکٹروں کو صرف نعش کا بیرونی معائنہ کرنے کے لئے ہی کہا تھا ۔

مرحوم پولیس آفسر کے بھائیوں کو اس پوسٹ کے مصدقہ ہونے کا یقین نہیں تھا اس لئے انہوں نے جعفر آباد سے مقتول نعش کو ان کے آبائی شہر کوئٹہ لانے کے بعد اسی سہہ پہر کو دوسرا پوسٹ مارٹم سول ہسپتال کوئٹہ سے کروایا تھا جہاں پولیس سرجن ڈاکٹر بلوچ نعش کا دوسرا پوسٹ مارٹم کیا اور فوری طور پر اپنی رپورٹ میں واقعہ کو قتل قرار دے دیا ۔ڈاکٹر بلوچ کا کہنا تھا کہ فطری طور پر یہ بات قطعی ناقابل یقین ہے کہ ایس ایس پی اپنی کنپٹی پر گولی چلا کر پستول اپنی گود میں رکھ لیا ہو ان کا موقف یہ تھا کہ اگر یہ خودکشی ہوئی تو فطری طور پر پستول کو نعش سے دور جا کر گرنا چاہئے تھا جبکہ نامعلوم افراد نے مبینہ خودکشی کے بعد جو تصاویر سوشل میڈیا پر جاری کیں اس میں یہ دکھائی دے رہا ہے کہ ایس ایس پی خودکشی کر کے پستول پراپنی گرفت برقرار رکھی اور پستول اپنی گود میں رکھ لیا ۔

ڈیرہ اللہ یار ہسپتال کے ڈاکٹروں نے ڈاکٹر بلوچ کی رپورٹ کو مسترد نہیں بلکہ قبول کیا ہے اب ان کا یہ کہنا ہے کہ وہ اپنی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مستند ہونے پر اصرار نہیں کریں گے اور ضرورت پڑھنے پر اپنی رپورٹ واپس لے لیں گے ۔انٹیلی جنس کے ماہرین نے ڈاکٹر بلوچ کی رپورٹ کو قابل قبول قرار دیا ہے مگر حیرت ناک امر یہ ہے کہ جعفر آباد پولیس نے ڈاکٹر بلوچ کی فرانزک رپورٹ کے باوجود ایف آئی آر ابھی تک درج نہیں کی ہے اس سلسلے میں جعفر آباد کے قائم مقام ایس ایس پی محمد سلیم سہڑی کا کہنا ہے کہ فی الحال کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی ہے انہوں نے ایک اخبار کو بتایا کہ ان کے علم میں نہیں ہے کہ جہانزیب کاکڑ کے مبینہ قتل کی کوئی ایف آئی آر درج ہوئی ہے قتل کے حوالے سے مرحوم کے قبیلے کے سرکردہ افراد اور سیاسی جماعتوں نے صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ بلوچستان ہائی کورٹ کے جج پر مشتمل جوڈیشل کمیشن سے غیر جانبدارانہ اور منصفانہ تحقیقات کرائی جائیں ۔

یہ مطالبہ کرنے والوں میں دوسروں کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی پاکستان پیپلزپارٹی کے راہنما روزی خان کاکڑ اور سابق صوبائی وزیر اسفندر یار ولی کاکڑ شامل ہیں انہوں نے یہ مطالبہ مقتول پولیس آفسر کے بھائیوں سے ملاقاتوں کے بعد کیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرحوم کے اہلخانہ پولیس کی تحقیقات سے مطمئن نہیں ہیں ۔

انٹیلی جنس ماہرین نے یہ شبہ ظاہر کیا تھا کہ ایس ایس پی کے قتل میں بعض پولیس کے افراد بھی ملوث ہو سکتے ہیں ۔یاد رہے کہ مرحوم کے بھائی ڈاکٹر عالم زیب خان کاکڑ نے ایس ایس پی کے مبینہ قتل کے بعد اخبار نویسوں کو بتایا تھا کہ ان کے بھائی کو گزشتہ چند دنوں سے ٹیلی فون پر سنگین انجام کی دھمکیاں مل رہی تھیں ۔ بلوچستان کے سرحدی علاقے چمن سے کراچی جو سمگل شدہ گاڑیاں پہنچائی جاتی ہیں ضلع جعفر آباد اس کا اہم روٹ ہے معلوم ہو اہے کہ مرحوم پولیس آفسر گاڑیوں کے اس دھندے کو روکنے والے اہم افسر تھے ۔