جہانزیب کاکڑ نے خود کشی نہیں کی ،قتل کیا گیا ہے، اہل خانہ کا موقف

پولیس گارڈز نے بتایا انہوں نے ایس ایس پی کے کمرے سے گولی چلنے کی آواز نہیں سنی،بھائی ڈاکٹر عالم زیب کاکڑ

جمعرات 19 مئی 2016 09:54

جعفر آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔19 مئی۔2016ء) جعفر آباد میں ایس ایس پی کی مبینہ خود کشی کے حوالے سے مرحوم جہانزیب کاکڑ کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ یہ خود کشی نہیں بلکہ قتل کا واقعہ ہے ۔ یاد رہے کہ ایک نجی ٹیلی وژن چینل نے 16 مئی کو یہ خبر نشر کی تھی کہ جعفر آباد کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس نے سوموار کے روز صبح کے وقت اپنے دفتر میں اپنے ہی پستول سے خود کشی کرلی ہے۔

خبر نشر ہونے کے بعد نامعلوم ذرائع نے وٹس ایپ پر مبینہ خود کشی کی ایک تصویر جاری کی جس میں ایس ایس پی کو اپنے دفتر میں اس حالت میں اپنی کرسی پر اس حالت میں بیٹے دکھایا گیا ہے کہ ان کے دائیں طرف کنپٹی میں سوراخ ہے اور خود کشی میں استعمال ہونے والا پستول مرحوم کی گود میں پڑا ہوا ہے اس کے علاوہ وٹس ایپ کی تصویر میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ مرحوم کی وردی کی قمیض خون آلود ہے اور بہت سا خون ان کی گود میں بھی جمع ہوگیا ہے مرحوم کا ایک پوسٹ مارٹم ڈیرہ اللہ یار کے سرکری ہسپتال میں ہوا۔

(جاری ہے)

اگلے دن مرحوم کے ایک بھائی ڈاکٹر عالم زیب کاکڑ نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ وہ اس واقعہ کو قتل تصور کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عالم زیب کا کہنا ہے کہ انہیں پولیس کے ان گارڈز نے جو ایس ایس پی مرحوم کے دفتر پر تعینات تھے نے بتایا کہ انہوں نے ایس ایس پی کے کمرے سے گولی چلنے کی آواز نہیں سنی۔ ڈاکٹر عالم زیب کے دعوے کی بنیاد ان کے بقول پولیس سرجن کا بیان ہے کہ پوسٹ مارٹم کردیا گیا ہے ۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ مرحوم پولیس افسر کا ڈیرہ اللہ یار کے سرکاری ہسپتال سے پوسٹ مارٹم ہو جانے کے بعد اسی دن سول ہسپتال کوئٹہ سے دوبارہ کروایا ہے۔ ڈاکٹر عالم زیب نے پولیس سرجن کوئٹہ کے حوالے سے کہا کہ واقعاتی شہادتیں خودکشی کی خبر کی تردید کرتی ہیں۔ ڈاکٹر عالم زیب کا کہنا ہے کہ کنپٹی پر پستول کی گولی چلنے سے مرحوم کے سر سے بھیجا بہ کر باہر اجانا چاہیے تھا مگر مرحوم کے سر سے بھیجا نہیں نکلا دوسرا یہ کہ پستول کے ذریعے خود کشی کی صورت میں استعمال ہونے والا پستول ایک جھٹکے سے مرحوم سے دور زمین پر جاگرنا چاہیے تھا۔

اور یہ بات نہ صرف حقائق کے برعکس بلکہ مضحکہ خیز ہے وٹس ایپ میں دکھایا گیا ہے کہ مرحوم کا خود کشی میں استعمال ہونے والا پستول ان کی گود میں پڑا ہوا ہے۔ ڈاکٹر عالم زیب نے کہا ہے سول ہسپتال کوئٹہ سے مرحوم پولیس افسر کی نعش سے حاصل کئے گئے نمونے فرانزک لیبارٹری میں بھجوا دیئے گئے ہیں جن کی رپورٹ آنے پر مزید صورتحال سامنے آئے گی۔ دریں اثنا یہ بات قابل غور ہے کہ سول ہسپتال کوئٹہ سے مرحوم کے دوبارہ پوسٹ مارٹم کے بعد بعض نامعلوم ذرائع نے وٹس ایپ پر ڈیرہ اللہ یار کے ہسپتال کی پوسٹ مارٹم کی رپورٹ جاری کردی جس میں بتایا گیا ہے کہ ایس ایس پی کی کنپٹی پر زخم ہے جو کہ پولیس آفیسر کے ہاتھوں سے چلنے والے پستول سے لگا تھا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیرہ اللہ یار کے ہسپتال کے ڈاکٹر کو اس بات کا یقین کرنے کا اختیار نہیں تھا کہ فرانزک رپورٹ کے بغیر ہی وہ یہ رائے قائم کرے کہ مبینہ خود کشی میں استعمال ہونے والے پستول سے ہی وہ گولی چلائی گئی تھی جو مرحوم کے سر میں تھی ڈیرہ اللہ یار کے ڈاکٹر نے وہ گولی دیکھی ہی نہیں تھی ۔ یہ گولی تو فرانزک ماہرین کی چیک کرنے کے بعد ہی تعین کر سکتے ہیں کہ یہ گولی اس پستول سے چلائی گئی ہے جو کہ مبینہ طور پر خود کشی میں استعمال ہوا کیونکہ ہوسکتا ہے کہ پولیس افسر کو کسی اور پستول سے قتل کیا گیا ہو۔

صرف پولیس اور فرانزک رپورٹ سے ہی معلوم ہوسکتا ہے کہ وہ گولی جو کہ مرحوم کے سر سے نکالی گئی ہوگی اسی پستول کی تھی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خود کشی میں استعمال ہوا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی تحقیق طلب ہے کہ مرحوم کی موت کو خود کشی ثابت کرنے کیلئے وٹس ایپ کون جاری کررہا ہے کیونکہ وہ دونوں وٹس ایپ نہ تو پولیس نے جاری کیے ہیں اور نہ ہی مرحوم کے اہل خانہ نے اسے انفرادی طور پر کیا ہے واضح رہے کہ وٹس ایپ پر جاری کی جانے والی مرحوم کی خود کشی کی تصویر اور پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کسی میڈیا نے بھی جاری نہیں کیں۔

ڈاکٹر عالم زیب کا دعویٰ ہے کہ ان کے بھائی پولیس افسر کو نامعلوم افراد کی طرف سے ٹیلی فون پر کئی دنوں سے قتل کی دھمکیاں موصول ہورہی تھیں ایسا اس وقت سے ہوا جب ایس ایس پی جعفر آباد نے ایک بچے کے ساتھ زیادتی کے الزام میں دو جوانوں کو گرفتار کرکے ایک پریس کانفرنس میں اس گرفتاری کا اعلان کیا۔ گرفتار ہونے والے جوانوں کا تعلق بااثر خاندانوں سے تھا۔

ڈاکٹر عالم زیب نے مزید کہاکہ راجن پور میں چھوٹو گینگ کے خلاف اپریل میں ہونے والے فوجی آپریشن کے نتیجے میں چھوٹو گینگ کے بعض مجرم جن کا تعلق کھوسہ اور بگٹی قبیلے سے تھا فرار ہوکر جعفر آباد میں داخل ہوگئے جنہیں ایس ایس پی نے گرفتار کرلیا تھا ان کی گرفتاریوں کے بعد بھی ایس ایس پی کو دھمکی آمیز ٹیلی فون کالیں موصول ہوئیں تھیں ۔ جہانزیب عالم کاکڑ کا تعلق بلوچستان کے ایک معزز خاندان سے تھا ان کے ایک بھائی شاہ زیب عالم کاکڑ کچھ عرصہ قبل تک لورالائی کے ڈپٹی کمشنر رہ چکے ہیں۔ ڈاکٹر عالم زیب نے کہا کہ وہ اپنے بھائی کے قتل کا مقدمہ درج کروائیں گے۔

متعلقہ عنوان :