نکرک میں ساڑھے 6 ارب کی گیس چوری ،کنکشن نہیں دے سکتے،پٹرولیم حکام

وزارت پٹرولیم اور کے پی کے حکومت کے درمیان مسائل مشاورت سے حل کرنے کیلئے مشترکہ اجلاس بلائیں ،چیئرمین کمیٹی کے پی کے چوبیس مطالبات خیبر پختونخوا کے ان علاقوں میں جہاں ریکوری سو فیصد ہے لوڈ شیڈنگ نہیں کی جارہی،362 فیڈرز پر کوئی لوڈشیڈنگ نہیں، سیکرٹری پانی وبجلی

بدھ 18 مئی 2016 09:54

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔18 مئی۔2016ء) سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خیبر پختونخوا چوبیس مطالبات میں وزارت پٹرولیم کے حکام نے بتایا کہ کرک میں ساڑھے چھ ارب کی گیس چوری ہوئی ہے اس لیے کرک میں گیس کنکشن نہیں دے سکتے ہیں۔ کے پی کے نمائندوں نے بتایا کہ 2012ء کی پالیسی کے تحت صوبائی حکومت کو پٹرول اور گیس تلاش کرنے کے 59لائسنس دیئے گئے تھے جو ابھی تک آپریشنل نہیں ہیں سیکرٹری پانی وبجلی نے کمیٹی کو بتایا کہ کے پی کے کے بہت سے علاقے جہاں ریکوری سو فیصد ہے وہاں پر لوڈ شیڈنگ نہیں کی جارہی ہے 362 فیڈرز پر کوئی لوڈشیڈنگ نہیں ہے۔

سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خیبر پختونخوا کی چوبیس مطالبات کا اجلاس منگل کے روز ہوا۔ اجلاس کی صدارت کنوینر سید مظفر حسین شاہ نے کی کمیٹی میں وزارت پٹرولیم اور کے پی کے نمائندوں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ کنوؤں میں سے جو میٹریل نکلتا ہے اس پر حکومت کو 12.5 فیصد رائلٹی دیتے ہیں جبکہ ان کا کہنا ہے کہ جو چیزیں اس میٹریل سے پیدا کرتے ہیں جیسے پٹرول ڈیزل اور ایل پی جی ان پر رائلٹی دی جائے کمیٹی کے سربراہ نے کہا کہ کمیٹی ان تمام معاملات کو حل کرے گی متعلقہ اداروں سے بات کرکے ایک پیکج لائیں تاکہ مسئلہ حل کیاجاسکے ایسا نہ ہوا تو معاملہ عدالت میں جائے گا۔

(جاری ہے)

چیئرمین کمیٹی نے یہ بھی ہدایت کی کہ وزارت پٹرولیم اور کے پی کے حکومت کے درمیان ان مسائل کو مشاورت سے حل کرنے کیلئے ایک مشترکہ اجلاس بلائیں جس میں ان مسائل کو حل کیاجاسکے۔ کے پی کے نمائندوں نے بتایا کہ رائلٹی کے حوالے سے پشاور ہائی کورٹ نے حکم دیا تھا جسے وزارت پٹرولیم اور ٹیکس کمپنی نے تسلیم کیا مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہوا جس پر سربراہ کمیٹی نے پشاور ہائی کورٹ کے خط کی کاپی طلب کرلی کے پی کے نمائندوں نے کہا کہ جن علاقوں میں گیس نکلتی ہے ان علاقو ں میں گیس مہیا نہیں کی جارہی ہے اور وزارت نے بتایا کہ صرف کمرشل کنکشن مہیا کئے جارہے ہیں۔

کرک کوہاٹ اور ہنگو کے لوگ بل نہیں دیتے پھر انہیں کیسے گیس دیں اور کرک کے لوگ ساڑھے چھ ارب کی گیس چوری کرتے ہیں کنکشن کیسے دے سکتے ہیں وزارت ریلوے سے کے پی کے نے ڈبل ٹریک کے لئے زمین مانگی تھی جس پر بات کرتے ہوئے کے پی کے نمائندے نے کہا کہ ہم نے یہ زمین پشاور اور جلال آبادٹریک کے لئے مانگی تھی جبکہ ٹریک لاہور سے عزاخیل تک بنے گا کیونکہ ڈرائی پورٹ پشاور سے غزاخیل منتقل ہورہا ہے جس پر وزارت ریلوے کی سیکرٹری پروین آغا نے کہا کہ وزارت اس وقت کوےئی زمین دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے ٹریک جلال آباد تک بنے گا اور سی پیک کا حصہ ہے ہم افغانستان کو دو جگہ سے ملائیں گے ایک چمن سے قندھار اور دوسرا پشاور سے جلال آباد چائنز کمپنی نے پشاور سے جلال آباد تک کے لئے زیادہ زمین مانگی ہے کیونکہ یہاں ٹرین ایک سو ساٹھ کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلے گی جس کے لئے دو ٹریکوں کے درمیان فاصلہ زیادہ ہونا بہت ضروری ہے سربراہ کمیٹی نے تمام ریلوے منصوبوں کی فزیبلٹی رپورٹ طلب کرلی ہے جبکہ بجلی کے معاملے پر بات کرتے ہوئے سیکرٹری واٹر اینڈ پاور نے بتایا کہ جن علاقوں میں ریکوری نہیں ہے وہاں آٹھ سے بیس گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے جہاں ریکوری سو فیصد ہے وہاں کوئی لوڈ شیڈنگ نہیں وزیراعلیٰ کی درخواست پر ان علاقوں میں بجلی دے رہے ہیں معاملے کو مزید حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ہم لائن لاسز کو ایک سو اسی بلین سے کم کرکے چالیس بلین تک لے آئے ہیں جس پر سینیٹر تاج حیدر نے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون کی خلاف ورزی ہے آپ بل دینے والوں کو بجلی چوری کرنے اور بل نہ دینے والوں کے ساتھ سزا دے رہے ہیں اگر لوڈ شیڈنگ کرنی ہے تو میری تجویز ہے کہ انتیس گھنٹے کریں جبکہ نمائندہ کے پی کے نے کہا کہ کنڈے لگانے والوں کیخلاف ہم کوئی کارروائی نہیں کرسکتے کیونکہ جب ان کے پاس جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں پہلے بجلی دیں بجلی ہوتی نہیں اور آپ چوری روکنے کیلئے آجاتے ہیں جس پر وزارت کے نمائندوں نے بتایا کہ کے پی کے حکومت نے یکم مئی سے بجلی چوری کرنے والوں کیخلاف آپریشن کرنے کا کہا تھا مگر ابھی تک کچھ نہیں کیا جس پر سربراہ کمیٹی نے کہا کہ ان معاملات کو باہمی مشاورت سے طے کیا جائے جس پر سیکرٹری واٹر اینڈ پاور نے اتفاق کیا۔

متعلقہ عنوان :