کراچی،جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے عزیر بلوچ کیخلاف فوجی عدالت میں جاسوسی کا مقدمہ چلانے کی سفارش کر دی

عزیر بلوچ ملک میں آرمی کی تنصیبات اور عہدیداران سے متعلق خفیہ معلومات ایران کے انٹیلی جنس افسران کو فراہم کیں جو1923 کی خلاف ورزی ہے،جے آئی ٹی

منگل 3 مئی 2016 10:20

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔3 مئی۔2016ء)کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عزیر جان بلوچ سے متعلق تحقیقات کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے مبینہ طور پر ایرانی انٹیلی جنس ایجنسی کے لیے جاسوسی کرنے پر عزیر بلوچ کے خلاف فوجی عدالت میں جاسوسی کا مقدمہ چلانے کی سفارش کردی ہے۔سندھ پولیس، رینجرز اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے افسران پر مشتمل تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ 29 اپریل کو محکمہ داخلہ سندھ کو ارسال کردی گئی تھی۔

جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق عزیر بلوچ ملک میں آرمی کی تنصیبات اور عہدیداران سے متعلق خفیہ معلومات ایران کے انٹیلی جنس افسران کو فراہم کرتا تھا، جو کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ (سرکاری خفیہ ایکٹ) 1923 کی خلاف ورزی ہے۔رپورٹ میں عزیر بلوچ کے اقبالی بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ لیاری کا یہ گینگسٹر 2013 میں کراچی میں رینجرز کے آپریشن کے آغاز کے بعد ایران فرار ہوگیا تھا، جہاں وہ چابہار میں اپنے دوست مالک بلوچ کے ہمراہ رہتا تھا اور وہی اس کی ملاقات دوہری شہریت رکھنے والے حاجی ناصر سے ہوئی۔

(جاری ہے)

ناصر نے عزیر بلوچ کو مستقل طور پر تہران منتقل ہونے اور بغیر پیسے خرچ کیے ایرانی شہریت دلانے کی پیشکش کی، کیونکہ اس کے ایرانی انٹیلی جنس افسران سے اچھے تعلقات تھے اور وہ عزیر کی ان سے ملاقات کرا سکتا تھا۔جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق عزیر بلوچ نے ناصر کی پیشکش پر رضا مندی ظاہر کی جس کے بعد اس کی ایرانی انٹیلی جنس کے ایک عہدیدار سے ملاقات کرائی گئی، جس نے عزیر کو شہریت دلانے کے بدلے کراچی کی سیکیورٹی صورتحال اور مسلح افواج کے عہدیداران سے متعلق مخصوص معلومات فراہم کرنے کو کہا۔

عزیر بلوچ نے تحقیقاتی ٹیم کو بتایا کہ اس کے 14 ساتھیوں میں سے 6 اب بھی چابہار میں ہیں۔رپورٹ میں تحقیقاتی ٹیم کے اراکین کی جانب سے حکومت سے سفارش کی گئی ہے کہ عزیر بلوچ کے خلاف، جاسوسی میں ملوث ہونے پر پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔جے آئی ٹی رپورٹ میں عزیر بلوچ اور اس کے ساتھیوں کو سیاسی اور نسلی بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کا بھی ملزم ٹھہرایا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق عزیر بلوچ کئی پولیس و رینجرز اہلکاروں اور حریف ارشد پپو کے قتل میں بھی ملوث پایا گیا، جبکہ وہ بھتہ خوری، زمینوں پر قبضے، چائنہ کٹنگ اور منشیات کی اسمگلنگ میں بھی ملوث رہا۔عزیر بلوچ نے تحقیقاتی ٹیم کو بتایا کہ اس نے اپنے والد کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے ارشد پپو، اس کے بھائی یاسر عرفات اور شیرا پٹھان کو اغوا کے بعد قتل کیا، جبکہ اس کارروائی میں انسپکٹر یوسف بلوچ، ایس ایچ او جاوید بلوچ اور انسپکٹر چاند خان نیازی نے اس کی مدد کی۔

متعلقہ عنوان :