صدر اوباما کی جی سی سی کے سربراہ اجلاس میں شرکت ، ایران کی خطے میں مداخلت ،داعش مخالف جنگ اور یمن وشام کی صورت حال پرغور

جمعہ 22 اپریل 2016 10:28

ریاض(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔22اپریل۔2016ء)امریکی صدر براک اوباما نے ریاض میں خلیج تعاون کونسل ( جی سی سی) کے رکن ممالک کے سربراہوں سے ملاقات کی ہے اور ان سے ایران، یمن اور شام میں جاری بحرانوں، القاعدہ اور داعش کے خلاف جنگ سمیت علاقائی سلامتی سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ *امریکی صدر نے گذشتہ سال کیمپ ڈیوڈ میں جی سی سی کے سربراہ اجلاس کی میزبانی کی تھی اور اس میں انھوں نے بڑی طاقتوں کے ایران کے ساتھ طے شدہ جوہری معاہدے سے متعلق خلیجی عرب لیڈروں کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی تھی۔

ریاض میں اجلاس کے آغاز سے قبل امریکی صدر اور دوسرے خلیجی لیڈروں نے مسکراتے چہروں کے ساتھ تصاویر بنوائی ہیں مگر اس دوران لب کشائی نہیں کی۔امریکی وزیر دفاع آشٹن کارٹر ،وزیر خارجہ جان کیری ،صدر اوباما کی قومی سلامتی کی مشیر سوسان رائس اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان برینان بھی اجلاس میں شریک ہیں۔

(جاری ہے)

قبل ازیں وائٹ ہاوٴس کا کہنا تھا کہ امریکا،جی سی سی سربراہ اجلاس کے تین سیشن ہوں گے۔

ایک میں علاقائی استحکام سے متعلق امور پر غور کیا جائے گا،دوسرے میں القاعدہ اور داعش کے جنگجووٴں کو شکست دینے سمیت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کوششوں پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔تیسرے سیشن میں ایران اور اس کی خارجہ سیاست اور سرگرمیاں موضوع بحث ہوں گی۔سعودی عرب اور دوسرے خلیجی عرب ممالک ایران کو خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے والی قوت کے طور پر دیکھ رہے ہیں اور وہ امریکا کے اس کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات پر نالاں ہیں۔

خلیجی ممالک ایران کی عراق ،بحرین ،شام اور یمن میں فوجی مداخلت کے بارے میں بھی اپنی تشویش کا اظہار کرچکے ہیں۔سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شام میں امریکا کی قیادت میں داعش کے خلاف فضائی مہم میں شریک ہیں اور سعودی عرب نے کچھ عرصہ قبل اس سخت گیر جنگجو گروپ کے خلاف کارروائی کے لیے اپنے زمینی دستے بھیجنے کی بھی پیش کش کی تھی مگر یہ ممالک چاہتے ہیں کہ امریکا شامی صدر بشارالاسد کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے دباوٴ ڈالے اور وہ ان کی حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے کسی عمل کا حصہ نہ بنے۔ جی سی سی کے سربراہ اجلاس میں شرکت کے بعد امریکی صدر اپنے وفد کے ہمراہ اپنے دورے کے اگلے مرحلے میں جمعرات کی شب الریاض سے برطانیہ اور جرمنی روانہ ہوجائیں گے۔