ہمیں نائن الیون حملوں کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تو امریکہ میں اربوں ڈالر کے اثاثے فروخت کردینگے ، سعودی عرب کی اوبامہ انتظامیہ اور کانگریس کو دھمکی ، اگر سعودی عرب کو محسوس ہوا کسی نئے قانون کے تحت امریکہ میں موجود سعودی اثاثوں کو منجمدکیا جا سکتا ہے تو سعودی عرب یہ اثاثے فروخت کرنے پر مجبور ہو جائیگا، سعودی وزیر

اتوار 17 اپریل 2016 11:30

ریاض (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔17اپریل۔2015ء)سعودی عرب نے اوباما انتظامیہ اور امریکی کانگریس کے ارکان کو خبردار کیا ہے کہ اگر انھوں نے کوئی ایسا قانون یا بِل منظور کیا جس کے تحت کوئی امریکی عدالت سعودی عرب کو گیارہ ستمبر کے حملوں کا ذمہ دار قرار دی سکتی ہے، تو سعودی عرب امریکہ میں موجود اپنے اربوں ڈالر کے اثاثے فروخت کر دے گا۔ امریکی میڈیا کے مطابق گزشتہ کئی ہفتوں سے اوباما انتظامیہ کانگریس کے ڈیموکریٹک اور ریپبلکن ارکان کو قائل کرنے میں مصروف ہے کہ وہ کانگریس میں اس قسم کے بل کو روکنے کی کوشش کریں۔

اس کے علاوہ کچھ عرصے سے سعودی عرب کے حوالے سے امریکی دفتر خارجہ اور وزارت دفاع کے حکام اور کانگریس کے درمیان بھی بہت لے دے ہو رہی ہے۔خارجہ اور دفاعی امور کے سینیئر حکام نے دونوں جماعتوں کے اراکین سینیٹ کو خبرادر کیا ہے کہ اگر سعودی عرب کے خلاف کسی قسم کی قانون سازی ہوتی ہے تو امریکہ کے لیے سفارتی اور معاشی حوالے سے اس کے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

سعودی حکومت کی جانب سے یہ پیغام ذاتی طور پر وزیر خارجہ عادل الجبیر نے اس وقت پہنچایا تھا جب وہ گزشتہ ماہ واشنگٹن گئے تھے۔ انھوں نے کانگریس کے ارکان کو بتایا تھا کہ اگر سعودی عرب کو محسوس ہوا کہ کسی نئے قانون کے تحت امریکہ میں موجود سعودی اثاثوں کو منجمد کیا جا سکتا ہے تو سعودی عرب یہ اثاثے فروخت کرنے پر مجبور ہو جائیگا۔ اس وقت امریکہ میں سعودی عرب کے 750 ارب ڈالر امریکی خزانے کی سکیوریٹیز کی شکل میں موجود ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اس قسم کا کوئی قدم نہیں اٹھائیگا کیونکہ ایسا کرنا اس کے لیے آسان نہیں ہوگا کیونکہ اس سے سعودی عرب کی اپنی معشیت بہت خراب ہو جائے گی، تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب کی جانب سے امریکہ کو اس قسم کی دھمکی سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اور تناوٴ کی کیفیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔اوباما انتظامیہ کا موقف ہے کہ اس قسم کی قانون سازی سے ان امریکیوں کو خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے جو ملک سے باہر ہیں۔

اسی لیے سرکاری حکام بڑی شد و مد سے کانگریس کے ارکان کو سعودی عرب کے خلاف کوئی بِل پاس کرنے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اوباما انتظامیہ کی جانب سے یہ پسِ پردہ کوششیں اتنی زیادہ ہوئی ہیں کہ کچھ ارکان اور گیارہ ستمبر کے حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین اوباما انتظامیہ پر خاصے برہمی کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس حلقے کا خیال ہے کہ اوباما انتظامیہ مسلسل سعودی عرب کی حمایت کر رہی ہے حالانکہ ان کے خیال میں گیارہ ستمبر کے دہشتگردی کے حملوں میں کچھ سعودی حکام نے کراد ر ادا کیا تھا۔

یاد رہے کہ سعودی حکام ایک عرصے سے اس الزام سے انکار کرتے آ رہے ہیں کہ گیارہ ستمبر کے حملوں میں سعودی عرب کا کوئی کردار تھا۔ اس کے علاوہ امریکہ میں ان حملوں کے حوالے سے قائم ہونے والے ’9/11 کمیشن‘ کا کہنا تھا کہ کمیشن کو بھی ’اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا تھا کہ بطور ادارہ سعودی حکومت یا سینیئر سعودی عہدیداروں نے ذاتی حیثیت میں یہ حملے کرنے میں کوئی کردار ادا کیا تھا۔‘