حکومت بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی امداد قرض لیکر دے رہی ہے،سینٹ کمیٹی میں انکشاف، 2009ء سے اب تک عالمی امدادی اداروں سے ایک ارب آٹھ کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالرز قرض لیا جس پر 0.5 فیصد سے لیکر 4.37 فیصد تک سود ہے،حکام بی آئی ایس پی،پاکستان میں 2.4فیصد لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں، اوسطا ہر ٹیکس دہندہ 18ہزار ٹیکس دیتا ہے، مردم شماری کیلئے چودہ ارب چالیس کروڑ روپے رکھے گئے،بریفنگ

بدھ 13 اپریل 2016 09:20

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 13اپریل۔2016ء) سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں انکشاف کیا کہ حکومت بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت دیئے جانے والے پیسے امداد دینے والے اداروں سے قرض لے کر تقسیم کر رہی ہے اور حکومت اس قرض کی رقم پر سود بھی ادا کر رہی ہے پاکستان میں صرف 2.4فیصد لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں پاکستان میں ٹیکس دہندگان کی تعداد دنیا میں بہت کم ہے اوسطا پاکستان میں ٹیکس دہندہ 18ہزار روپے ٹیکس دیتا ہے مردم شماری کیلئے چودہ ارب چالیس کروڑ روپے رکھے گئے ہیں جس میں سے صرف ایک ارب نوے کروڑ روپے ہی جاری ہوئے ہیں سینٹ کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس منگل کو چیئرمین کمیٹی سینٹر سیلم ماونڈوی والا کی زیر صدارت پارلیمینٹ ہاؤس میں منعقد ہوا اس موقع پر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے حکام نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت مقامی اور غیر ملکی فنانسنگ کے تحت حاصل کردہ فنڈز مستحقین میں تقسیم کیے جارہے ہیں۔

(جاری ہے)

بی آئی ایس پی حکام نے بتایا کہ سال 2009 سے اب تک عالمی بنک ، ایشیائی ترقیاتی بنک سمیت دیگر ڈونر اداروں سے ایک ارب آٹھ کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالرز سے زائد قرض لیا گیا ہے جس پر 0.5 فیصد سے لے کر 4.37 فیصد تک سود ہے۔ کمیٹی کے رکن سینیٹر سعود مجید نے استفسار کیا کہ کیا عوام میں پیسہ قرض لے کر تقسیم کیا جا رہا ہے جس پر بی آئی ایس پی حکام نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ لی گئی رقم پر سود حکومت ادا کر رہی ہے۔

اجلاس کے دوران شماریات ڈویڑن اور پاکستان ادارہ شماریات کے رواں مالی سال کا بجٹ بھی زیر بحث آیا۔ سکریٹری شماریات شاہد حسین اسد نے بتایا کہ شماریات ڈویژن کا بجٹ چھ کروڑ چالیس لاکھ جبکہ پی بی ایس کا بجٹ دو ارب چالیس کروڑ روپے ہے۔ مردم شماری کیلیے چودہ ارب چالیس کروڑ روپے رکھے گئے جس میں سے صرف ایک ارب نوے کروڑ روپے ہی جاری ہوئے ہیں۔

اجلاس میں اقتصادی ماہر سلمان شاہ نے ٹیکس نیٹ میں اضافے کے حوالے سے روپوٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں صرف 2.4فیصد لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں پاکستان میں ٹیکس دہندگان کی تعداد دنیا میں بہت کم ہے جس پر ایف بی آر کے حکام نے کہا کہ یہ اعددو شمار ٹھیک نہیں ہے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں سینٹر الیاس بلو ر نے کہا کہ ایف بی آر کے رویے کی وجہ سے لوگ ٹیکس ادا نہیں کرتے ایف بی آر حکام عوام دوست پالیسی اپنا نے کی ضرورت ہے اگر ہی ٹیکس نیت میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں ایف بی آر حکام نے کہا کہ پاکستان میں اوسطا ٹیکس دہنددہ 18ہزار روپے ٹیکس دیتا ہے رواں مالی سال کے ابتدائی 9ماہ کے دوران ایف بی آر نے ریکارڈ ٹیکس اکٹھا کیا ہے اور اس سال کے ٹارگٹ کو حاصل کرنے کے لیے کو شش کی جا رہی ہیں ۔

متعلقہ عنوان :