جان کیری کی اشرف غنی سے ملاقات، کابل زودار دھماکوں سے گونج اٹھا،جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی،ابتدائی تحقیقات کے مطابق علاقے میں تین راکٹ داغے گئے ہیں،پولیس ،طالبان کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات کو بحال کر دیں،امریکی وزیر خارجہ

اتوار 10 اپریل 2016 11:15

کابل ( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 10اپریل۔2016ء) افغانستان کے دارالحکومت کابل میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور افغان صدر اشرف غنی کی ملاقات کے بعد سفارتی علاقے میں دھماکوں کی آواز سنی گئی تاہم جانی نقصان کے بارے میں معلوم نہیں ہو سکا۔ ہفتہ کو غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق افغان دارالحکومت کابل کے سفارتی علاقے میں اس وقت زور دار دھماکے سنے گئے جب امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات ختم ہوئی تھی ۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیقات میں معلوم ہوا ہے کہ علاقے میں تین راکٹ داغے گئے ہیں تاہم کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی ۔اس سے قبل امریکی وزیر خارجہ جان کیری غیر اعلانیہ دورے پر کابل پہنچے جہاں انھوں نے افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کی جس میں افغانستان میں سیکورٹی کی صورتحال اور افغان امن عمل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

(جاری ہے)

جان کیر ی نے اپنے دورہ افغانستان کے دوران طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات کو بحال کر دیں۔ کابل میں افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ ملاقات کے بعد ایک پریس کانفرنس کے دوران کیری نے کہا کہ کابل اور واشنگٹن حکام طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں۔ کیری نے اپنے اس غیر اعلانیہ دورے کے دوران چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے بھی ملاقات کی تاہم وہ اس پریس کانفرنس میں شریک نہ ہوئے۔

افغان طالبان نے گزشتہ ہفتے ہی کابل حکومت سے مذاکرات سے انکار کر دیا تھا۔2014ء کے صدارتی انتخابات میں اشرف غنی کی کامیابی کو عبداللہ عبداللہ نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور ملک میں ایک سیاسی بحران کی سی صورتحال پیدا ہو چلی تھی۔اس وقت بھی جان کیری نے ہی غنی اور عبداللہ کے مابین شراکت اقتدار کے ایک معاہدے کو قابل عمل بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

اس معاہدے کے تحت دو سالوں میں سیاسی اصلاحات کے ذریعے چیف ایگزیکٹو کے عہدے کو وزارت عظمیٰ میں تبدیل کیا جانا بھی شامل تھا لیکن ڈیڑھ سال پرانی اتحادی حکومت تاحال اس ضمن میں کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں دکھا سکی۔اسی دوران کئی اہم عہدوں پر تعیناتیوں کے معاملے پر بھی اتحادی حکومت میں شدید اختلافات دیکھنے میں آچکے ہیں جب کہ گزشتہ ماہ رائے عامہ کے ایک جائزے سے معلوم ہوا کہ 80 فیصد افغان اس اتحادی حکومت کی کارکردگی سے کلی یا جزوی طور پر مطمیئن نہیں ہیں۔

گزشتہ سال ہی افغان طالبان کے ساتھ شروع ہونے والا مصالحتی عمل بھی تاحال تعطل کا شکار ہے اور ایسے میں طالبان حکومت کے خلاف تشدد پر مبنی اپنی تازہ مہم کا عندیہ بھی دے چکے ہیں۔امریکہ کی زیر قیادت اتحادی افواج 2014ء کے اواخر میں اپنا لڑاکا مشن ختم کر کے اپنے وطن واپس جا چکی ہیں لیکن ایک معاہدے کے تحت اب بھی تقریباً 12 ہزار بین الاقوامی فوجی یہاں مقامی سکیورٹی فورسز کی تربیت اور انسداد دہشت گردی میں معاونت کے لیے موجود ہیں۔

ان فوجیوں میں اکثریت امریکیوں کی ہے۔حالیہ مہینوں میں امریکہ کی طرف سے افغانستان کے ساتھ اعلیٰ سطحی رابطوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔گزشتہ ماہ صدر براک اوباما نے وڈیو کانفرنس کے ذریعے افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے بات کی تھی۔