وفاقی کابینہ پر ماہانہ9کروڑ 90لاکھ خرچ ہو تاہے،سینٹ کمیٹی کو بریفنگ،ہروزیر کو تنخواہ اور ہاؤس رینٹ کی مد میں ماہانہ3لاکھ49ہزار روپے دیئے جاتے ہیں، کیبینٹ ڈویژن 16کروڑ کا بجٹ واپس کریگا،کمیٹی کا پی ٹی ڈی سی کی خراب مالی حالت کا نوٹس، کھربوں کی املاک ہیں،ناقص انتظامات کی وجہ سے ادارہ خسارے کا شکار ہے، کمیٹی

جمعرات 7 اپریل 2016 10:17

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 7اپریل۔2016ء ) سینٹ قائمہ کمیٹی برائے کبینٹ کو بتایا گیا کہ حکومت وفاقی کابینہ پر ماہانہ 9 کروڑ 90لاکھ روپے خرچ کرتی ہے ،ہروزیر کو تنخواہ اور ہاؤس رینٹ کی مد میں ماہانہ3لاکھ49ہزار روپے ادا کئے جاتے ہیں ، کیبینٹ ڈویژن 16کروڑ روپے سے زائد بجٹ واپس کرے گا کمیٹی نے پی ٹی ڈی سی کی خراب مالی حالت کا نوٹس لیتے ہوئے کہاکہ ادارے کے پاس کھربوں روپے کی املاک ہیں تاہم ناقص انتظامات کی وجہ سے ادارہخسارے کا شکار ہے،کمیٹی نے انٹلیکچول پراپرٹی آرگنائزیشن میں سالوں سے التوا مقدمات سے سرمایہ کاروں کو پہنچنے والے نقصانات کا نوٹس لیتے ہوئے گذشتہ 5سالوں کا ریکارڈ طلب کر لیا ،کمیٹی نے ابنڈنٹ پراپرٹی کی تمام املاک فروخت کرنے اور 25ارب روپے سے زائدمنافع کو حکومتی خزانے میں ڈالنے کیلئے وزارت خزانہ سمیت تمام حکام کو طلب کر لیا ہے ۔

(جاری ہے)

کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر طلحہ محمود کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا اجلاس میں سینیٹرز شاہی سید ، ہدایت اللہ ، میر محمد یوسف بادینی ، کامل علی آغا، نجمہ حمید، کلثوم پروین اور حاجی سیف اللہ بنگش کے علاوہ سیکرٹری کیڈ ندیم حسن آصف ، ایڈیشنل سیکرٹری کیڈ شاہ رخ ، چیئرمین آئی پی او شاہدراشد، ایم پی ٹی ڈی سی کبیر احمد ،ایڈمنسٹریٹو عالمگیر احمدخان، ڈائریکٹر اے پی او کے علاوہ دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔

اجلاس میں کیبنٹ ڈویژن ، نیشنل آرکائیو آف پاکستان ، سٹیشنری اینڈ فرمز کے ادارہ ، کمیونیکیشن سیکورٹی کے ادارہ ، پاکستان ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن اور انٹی لیکچول پراپرٹی آرگنائزیشن اداروں کے مالی سال 2015-16 کے بجٹ اور اس کے استعمال کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لینے کے علاوہ انٹی لیکچول پراپرٹی آرگنائزیشن کے ادارے کو جون2015 میں دی گئی قائمہ کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد اور ابنڈنڈ پراپرٹیز آرگنائزیشن ادارے کی کارکردگی ، کام کا طریقہ کار اور ہندؤ سیکھوں اور بنگالیوں کی چھوڑی گئی جائیداد کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔

سیکرٹری کیبنٹ ڈویژن ندیم حسن آصف نے کیبنٹ ڈویژن کے بجٹ اور اس کے اب تک ہونے والے استعمال کے حوالے سے قائمہ کمیٹی کو تفصیل سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ مالی سال 2015-16 کیلئے 6.78 ارب روپے مختص کیے گئے تھے جس میں سے 3.2 ارب روپے خرچ ہو چکا ہے اور مئی 2016 تک 165 ملین روپے سرنڈر کرنا پڑے گا جس پر چیئرمین کمیٹی طلحہ محمود نے کہا کہ بہت سے ایسے ادارے ہیں جہاں ملازمین کی تنخواہ دینے کے فنڈز موجود نہیں ہیں اور بہت سے اہم منصوبہ جات فنڈز کی کمی کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہیں مگر کچھ اداروں میں اتنا بجٹ فراہم کیا جاتا ہے کہ آخر میں سرنڈر کرنا پڑتا ہے بجٹ بناتے وقت ان باتوں کا خیال رکھ کر بجٹ مختص کیاجائے تاکہ اہم منصوبہ جات وقت پر مکمل ہو سکیں ۔

قائمہ کمیٹی کو سیکرٹری کیبنٹ ڈویژن نے آگاہ کیا کہ وفاقی وزیر کی تنخواہ 2.46 لاکھ ہے جبکہ وزیر مملکت کی تنخواہ 2.28 لاکھ روپے ہے ہر وزیر کو ہاوس رینٹ کی مد میں ایک لاکھ تین ہزار روپے ادا کئے جاتے ہیں تاہم جو وزیر منسٹر کالونی میں رہائش پذیر ہیں ان کو ہاؤس رینٹ نہیں دیا جاتا ہے انہوں نے بتایاکہ تمام مشیر خارجہ سمیت تمام مشیروں کا سٹیٹس وزیر مملکت کے برابر ہوتا ہے اور ان کو اسی سٹیٹس کے مطابق تنخواہیں اور دیگر مراعات دی جاتی ہیں کمیٹی کو نیشنل آرکائیو آف پاکستان کے بجٹ کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا گیا ۔

قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 63.5 ملین بجٹ میں سے 35 ملین خر چ کیا جا چکا ہے اور زیادہ تر اخراجات ملازمین کے حوالے سے ہیں۔ سٹیشنری اینڈ فرمز کے ادارے کے بجٹ کے حوالے سے قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 27.5 ملین بجٹ تھا 19.2 ملین خر چ کیے جا چکے ہیں ۔ادارہ آڈر لے کر پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان سے پرٹنگ کرواتا ہے اور یہ محکمہ اب ختم ہونے والا ہے سٹڈ ی کر و ا کر سمری بھیج دی گئی ہے جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ایک سروے کروایا جائے اور اس طرح کے دیگر محکمہ جات جن کی افادیت ختم ہو چکی ہے ان کو ختم کرایا جائے یا انہیں دوسرے شعبے میں تبدیل کروایا جائے کمیٹی کو کمیونیکیشن سیکورٹی کے ادارے کے بجٹ بارے بھی تفصیل سے آگاہ کیا گیا قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ادارے کا بجٹ 10 کروڑ ہے جس میں سے 1.7 ملین روپے اضافی ہیں قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ یہ ادارہ آرمڈ فورسز ، آئی بی ، ریلوے و دیگر اداروں کے ڈیٹا کو کوڈ کے ذریعے محفوظ کرتا ہے یہ ادارہ سیفرکی تربیت بھی فراہم کرتا ہے اور ایک پرنٹنگ ونگ ہے جس سے10 لاکھ صفحے چھاپے جاتے ہیں ادارے کے ملازمین کی تعداد 184 ہے قائمہ کمیٹی کو پاکستان ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے بجٹ بارے بھی آگاہ کیا گیا منیجنگ ڈائریکٹر نے بتایا کہ ادارے کا کام موسمی ہوتا ہے سردیوں میں ہمارے موٹلز بند رہتے ہیں پچھلے سال کی نسبت۷ ۳ فیصد آمدن میں اضافہ ہوا ہے ادارہ خسارے میں جارہا ہے اس سال 21 ملین کا نقصان ہوا 2013 میں706 غیر ضروری اضافی بھرتیاں کی گئیں جس پر رکن کمیٹی میر محمد یوسف بادینی نے کہا کہ غلط تقرریوں کرنے والے انتظامیہ کے خلاف کیا اقدامات اٹھائے ہیں ۔

جس پر بتایا گیا کہ اس حوالے سے نیب کو شکایت کر دی گئی ہے کہ اشتہار کے بغیر بھرتیاں کی گئی ہیں ۔ تین ماہ کی تنخواہ ان ملازمین کو فراہم کرنے کے بعد تنخواہ بند کر دی گئی ہے جس پر اراکین کمیٹی نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ وطیرہ بن چکا ہے جانے والوں پر ملبہ ڈال کر معاملہ ہضم کر لیا جاتاہے ۔ چیئرمین کمیٹی طلحہ محمود نے کہا کہ پی ٹی ڈی سی کے تمام موٹلز اہم جگہوں پر واقع ہیں مگر نااہلی کی وجہ سے ان موٹلز کی بجائے پرائیوٹ ہوٹلز و موٹلز کروڑوں روپے کما رہے ہیں ۔

یہ موٹلز دنیا کے خوبصورت ترین نظارے پیش کرتے ہیں ۔قائمہ کمیٹی کو آئندہ اجلاس میں پی ٹی ڈی سی کے معاملات پر تفصیلی بریفنگ دی جائے ۔قائمہ کمیٹی نے راولپنڈی میں واقع فلش مین ہوٹل کے معاملات بہتر کرنے کی بھی ہدایت کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں انٹی لیکچول پراپرٹی آرگنائزیشن کے بجٹ اور سابقہ اجلاس میں دی گئی سفارشات کا تفصیل سے جائزہ لیاگیا۔

قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ آئی پی او اپنے وسائل سے آمدن حاصل کرتا ہے حکومت سے کوئی بجٹ نہیں لیتا اراکین کمیٹی سینیٹرز کلثوم پروین اور کامل علی آغا نے کہا کہ ادارے کے ملازمین وکلاء کے ساتھ ملکر عام کاروباری حضرات کو تنگ کرتے ہیں رجسٹریشن کیلئے سالوں انتظار کرنا پڑتا ہے ۔رجسٹریشن کروانا انتہائی مشکل ہو چکا ہے قائمہ کمیٹی نے معاملات بہتر بنانے کی سفارش بھی کی تھی جس پر ڈائریکٹر آئی پی او نے بتایا کہ بہتری کیلئے اقدمات اٹھا رہے ہیں کرا چی اور لاہور میں ون ونڈو اپریشن شروع ہو چکا ہے اور دیگر اقدمات بھی اٹھائے گئے ہیں جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سیکرٹری کیبنٹ ڈویژن اورآئی پی او کے حکام مل کر موثر تجاویز تیار کریں اور اگر ایکٹ میں ترمیم کی ضرورت ہو قائمہ کمیٹی مدد کرے گی تاکہ عوام کی مشکلات ختم ہو سکیں ۔

اور آئندہ اجلاس میں رجسٹرار آ کر معاملات بارے تفصیل سے آگاہ کریں چیئرمین آئی پی او نے بھی تسلیم کیاکہ ادارے کے ملازمین فرشتہ نہیں ہیں بہتری کے لئے اقدامات اٹھارہے ہیں ۔ چیئرمین کمیٹی نے چیئرمین آئی پی او کو ہدایت کی کہ آئندہ اجلاس میں پچھلے پانچ سالوں کے دوران کیسز کی تفصیلات سالانہ موازنہ کے ساتھ کمیٹی کو فراہم کرنے کی ہدایت کر دی کمیٹی کو بنگلہ دیش جانے والے بنگالیوں کی املاک کے ادارے کے ایڈمنسٹریٹر عالمگیر احمدخان نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ ادارہ متروکہ املاک اے پی او کیبنٹ ڈویژن کا ایک نیم عدالتی ذیلی ادارہ ہے جس کا قیام 1975 میں ہوا جس کا مقصد سابقہ پاکستانی شہریوں کی متروکہ جائیدادوں کا انتظام و انصرام سنبھالنا تھا جو بنگلہ دیش ہجرت کر گئے تھے ۔

اور 1981 کو بورڈ آف ٹرسٹیز کے فیصلے کے مطابق اسے مالی طور پر خو د مختار ادارے کا درجہ دیاگیا ۔ ادارے کی اسلام آباد اور کراچی میں جائیدادیں اور دفاتر ہیں ادارے کا سربراہ چیئرمین ہے ادارہ اپنے وسائل سے آمدن حاصل کرتا ہے ادارے کی کراچی اور اسلام آباد میں جائیدادیں ہیں ۔ادارے کے کل ملازمین کی تعداد 62 ہے ادارے کے پلاٹ 392 ، گھر69 ، 15 دکانیں ، ایک فلیٹ ،468 گرام طلائی زیورات ،3804 ایکٹر زمین تھی جس میں سے بہت سارے گھر پلاٹ دکانیں اور زرعی زمین فروخت کی چکی ہے لاہور میں پانچ مرلے کا مکان بھی ہے کرائے ہے ادارے نے 25 ارب کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے جس سے آمدن حاصل ہوتی ہے ۔

ایڈمنسٹریٹو عالمگیر احمدخان نے کہا کہ بنگلہ دیش میں پاکستانیوں کی پراپرٹی بہت زیادہ تھی اور وہ فروخت ہو چکی ہے ۔زرعی زمین سندھ میں واقع ہے اور وہ ہمارے قبضے میں نہیں ہے سندھ حکومت سے اس حوالے سے بات چیت ہو رہی ہے ۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے ادارے کے عدالتی کیسز اور فروخت کردہ پراپرٹی کی تفصیلات طلب کر لیں

متعلقہ عنوان :