سرکاری دستاویزات نے وزیراعظم کی دعوؤں کا پو ل کھول دیا،نواز شریف نے صوبائی وزیر خزانہ پنجاب سے لیکر پہلی مرتبہ وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے تک اپنے صنعتی یونٹوں کی تعداد 1سے 19تک بڑھالی،وزیراعظم نے عدالتی کمیشن کے قیام کا سہارا لیکر سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی طرح بے گناہی کا سرٹیفکیٹ لینے کی تیاریاں شروع کردیں،عدالتی کمیشن کے پاس حقائق پر مبنی سرکاری دستاویزات پہنچ گئیں تو نواز شریف کیلئے سیاسی زندگی بچانا مشکل ہو جائے گا،قانونی ماہرین کی رائے

جمعرات 7 اپریل 2016 09:52

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 7اپریل۔2016ء ) وزیراعظم میاں نواز شریف نے صوبائی وزیر خزانہ پنجاب سے لیکر پہلی مرتبہ وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے تک اپنے صنعتی یونٹوں کی تعداد 1سے 19تک بڑھائی ، وزیراعظم قوم سے خطاب میں قرضوں کی ادائیگی اور صنعتی یونٹ کے قیام سے متعلق جھوٹ بولتے رہے ۔ وزیراعظم نواز شریف نے عدالتی کمیشن کے قیام کا سہارا لیکر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی طرح بے گناہی کا سرٹیفکیٹ لینے کی تیاریاں شروع کردیں ۔

سرکاری دستاویزات نے وزیراعظم کے جھوٹ کا پول کھول دیا ۔ لیکن آئینی اور قانونی ماہرین کاکہنا ہے کہ اگر اس عدالتی کمیشن کے پاس حقائق پر مبنی سرکاری دستاویزات پہنچ گئیں تو میاں نواز شریف کیلئے اپنی سیاسی زندگی بچانا مشکل ہو جائے گا کیونکہ جو سرکاری دستاویزات ہیں وہ بالکل نواز شریف کے دعوؤں کی نفی کرتی ہوئی نظر آتی ہیں ۔

(جاری ہے)

نواز شریف نے اپنی تقریر میں بتایا کہ 70کی دہائی میں شریف فیملی بہت بڑی صنعتی ایمپائر کی مالک تھی ،1972ء میں لاہور میں ایک اور ڈھاکہ میں 6صنعتی یونٹ تھے۔

نواز شریف کے مطابق 1972ء میں اتفاق فا وٴنڈری سٹیل اور مشینری کے حوالے سے سب سے بڑی صنعتی ایمپائر تھی۔ خبر رساں ادارے کو ملنے والی تحقیقاتی سرکاری دستاویزات کے مطابق1970-71ء میں شریف فیملی کی جانب سے 7ہزار 623روپے انکم اثاثے 7ہزار 194اور ٹیکس صفر بتایا گیا ہے نواز شریف کے مطابق 1979ء میں اتفاق فاوٴنڈری کھنڈرات کی شکل میں ملی جبکہ سرکاری دستاویزات کے مطابق جنرل ریٹائرڈ ضیا ء الحق نے جون 1979ء میں جب اتفاق فاوٴنڈری واپس کی تو گروپ کے ذمہ 8کروڑ 34لاکھ کے قرضے جنرل ضیاء الحق نے معاف کردیئے تھے نواز شریف کے مطابق 1989ء میں پیپلز پارٹی کے حکومت نے ان کے جوناتھن نامی جہاز کو ایک سال تک مال اتارنے کی اجازت نہ دی جس سے انہیں صرف اس ایک اقدام سے اس وقت 50کروڑ کا نقصان ہوا۔

حقیقت یہ ہے اور ٹیکس گوشوا رے اس کی گواہی دے رہے ہیں کہ 1988-89ء میں شریف فیملی کی کل ظاہر کردہ آمدنی 9لاکھ 38ہزار 311اور اثاثوں کی کل مالیت 2لاکھ 42ہزار 915روپے تھی۔سرکاری دستاویزات کے مطابق 1992-93ء میں شریف فیملی کی آمدن 43ہزار 727 روپے اثاثوں کی مالیت 3لاکھ 11ہزار 573اور صرف 6ہزار 170روپے ٹیکس کی مد میں ادا کیا گیا۔ اسی طرح 1993-94ء میں شریف فیملی نے کل آمدن 2لاکھ 82ہزار 504 روپے ظاہر کی اور اثاثوں کی مالیت 1لاکھ 81ہزار 491اور 10ہزار 422روپے ٹیکس ادا کیا۔

خبر رساں ادارے کو ملنے والی دستاویزات کے مطابق نواز شریف نے مالی سال 1992-93ء میں آمدن 5ہزار 521روپے اثاثوں کے مالیت 2لاکھ 47ہزار 238روپے ظاہر کی جبکہ صرف 2ہزار 660روپے ٹیکس دیا۔1993-94ء میں نواز شریف نے آمدن 1لاکھ 35ہزار 809روپے ،اثاثوں کے مالیت 1لاکھ 17ہزار 551روپے ظاہر کی جبکہ 14ہزار 698روپے ٹیکس دیا۔ نواز شریف نے اپنی تقریر میں اپنی فیملی کے بہت بڑے صنعتی ایمپائر اور کروڑوں روپے ٹیکس کا بار بار تذکرہ کیا لیکن سرکاری دستاویزات نواز شریف کو دعوؤں کے با لکل برعکس ہے اور انکی آمدن اور اثاثوں کی مالیت چند لاکھ جبکہ ٹیکسوں کی مد میں ادائیگی چند سو یا چند ہزار سے زائد نہ ہے۔

یہ وہ وقت تھا جبکہ دستاویزات کے مطابق شریف فیملی کی جانب سے ایون فیلڈ ہاوٴس پارک لین لندن میں2آف شور کمپنیوں نیلسن اور نیسکول کے ذریعے 4لگژری فلیٹس خریدے گئے ۔نواز شریف جب 19984-85ء میں وزیر خزانہ پنجاب تھے اس وقت کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق انکا 1انڈسٹریل یونٹ تھا اور 1985 تک جب وہ وزیر اعلی پنجاب تھے اس دوران شریف فیملی کے انڈسٹریل یونٹس کی تعداد 1سے بڑھ کر 9ہو چکی تھی1991-93ء میں جب وہ پہلی مرتبہ وزیر اعظم بنے ان 2سالوں میں انکے انڈسٹریل یونٹس کی تعدا د 9سے بڑھ کر 28ہو گئی۔

تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ نواز شریف نے وزیر خزانہ سے لیکر پہلی مرتبہ وزیر اعظم بننے تک اپنے عہدوں کا ناجائز استعمال کر کے سرکاری اور پرائیویٹ مالیاتی اداروں سے 19انڈسٹریل یونٹس کیلئے بھاری قرضے حاصل کئے اور 1993ء تک شریف فیملی پر واجب الادا قرضوں کا حجم 6146ملین سے زائد تھا۔نواز شریف نے اپنی تقر یر میں پونے 6ارب کے واجب الادا قرضہ چکانے کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی یعنی 21سال بعد بھی شریف فیملی کی جانب سے 1993ء میں واجب الادا ر قم 6ارب 14کروڑ کی بجائے پونے 6ارب ادا کیا اور نیشنل بینک آف پاکستان نے 10دسمبر 2014ء کو ایک خط کے ذریعے شریف فیملی کو واجب الادا قرضہ کی ادائیگی پر این او سی جاری کیا۔

نیشنل بینک آف پاکستان کا 10دسمبر 2014ء کا خط جس کو شہبا ز شریف نے پریس کانفرنس میں بھی لہرایا تھا ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ 93سے 2014ء تک ڈیفالٹر شریف فیملی کے ارکان نواز شریف ،شہباز شریف اور حمزہ شہباز نے 2013ء کے انتخابات میں ڈیفالٹر ہونے کے باجود کسطرح حصہ لیا۔؟دستاویزات کے مطابق1988-89ء میں اتفاق فاوٴنڈری کے ذمے 230ملین ٹیکس واجب الادا تھا ،1995ء کے عدالتی حکم کے مطابق شریف فیملی (اتفاق فاوٴنڈری ) 250ملین واجب الادا ٹیکس کی مد میں اور 150ملین یعنی پلنٹی کی مد میں ادائیگی کرنا تھی جو آج تک نہیں ہو سکی۔